لیڈرز ان اسلام آباد بزنس سمٹ کے چھٹے ایڈیشن کا اختتام، 50 سے زائد ملکی و غیرملکی ماہرین کی شرکت

هفته 03 جون 2023ء

سمٹ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیریں رحمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ جون میں فرانس میں ہونے والی کانفرنس اسی لیے ہورہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اس لیے بنائے گئے کہ ترقی پذیر ملکوں کی معاونت کریں۔ فرانس میں ہونے والی کانفرنس عالمی مالیاتی نظام کی تنظیم نو کرے گی، جس میں کلائمنٹ فنانس بھی شامل ہے۔ پاکستان نے کوپ 27 میں ایک موقع حاصل کیا اور ایک گروپ کو متحدہ کیا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے اہداف کو حاصل کر لے گا۔ موجودہ مالیاتی نظام کلائمنٹ فنانس اہداف کے لئے موضوع نہیں ہے۔ اور یہ کام نہیں کرسکے گا، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے ہزاروں ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ بھارت ہمارے پڑوس میں ایک بڑا آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ پلاسٹک کو عالمی سطح پر ختم کیا جارہا ہے، لیکن ہمارے یہاں پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ پاکستان سالانہ دو کے ٹو کے مساوی پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتا ہے۔ حکومتیں آلودگی نہیں پھیلا رہی ہیں۔ بڑی صنعتیں اور کمپنیاں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی ہیں۔ ان صنعتوں کو معاونت کی جائے جو کہ اپنے کاروبار کو گرین انرجی پر منتقل کررہے ہیں۔ پاکستان کا فضائی آلودگی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر یہاں ہم 45 ڈگری کا درجہ حرارت برداشت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ پالیسی فریم ورک تیار اور قومی سطح پر ایک منصوبہ بناکر اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ بڑے ڈیمز کا دور ختم ہوگیا۔پاکستان کو پانی کے ذخائر کی ضرورت ہے۔ ہم درجہ حرارت میں 2ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی طرف جارہے ہیں۔ جس سے گلیشیر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گلیشیر پگھلتے ہیں تو وہ پلوں اور جو کچھ ان کے راستے میں آتا ہے اس کو بہا کر لے جاتے ہیں۔سیاچن گلیشیر بہت تیزی سے پگھل رہا ہے۔ پانی کی کمی فی الحال نہیں ہو گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے استعمال کو کنٹرول کیا جائے۔قحط سالی اور سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے، لیکن ہمارے طرز زندگی تبدیلی نہیں آرہی۔ پاکستان میں اب بھی لوگ گھروں میں گاڑیاں دھونے میں ہزاروں گیلن پانی ضائع کر دیتے ہیں۔پاکستان فی کس پانی کی کھپت کی قلت کے حساب سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا کہ بیانیہ میں تبدیلی کرنا مشکل کام ہے۔ اس کا اسپکٹرم بہت طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ بیانیہ ارتقائی اور انقلابی ہوسکتا ہے، جس کے ذریعے معاشرے اور قوم دونوں کا ارتقاء ہوتا ہے۔ انقلابی بیانیہ قلیل مدتی جبکہ ارتقائی بیانیہ طویل مدتی ہوتا ہے۔ ریاست کا بیانیہ ایک نئی چیز ہے۔ بیانیہ میں نفرت کی علامت ہٹلر تھا، جب کہ انسانیت کی علامت عبدالستار ایدھی۔ ایک بیانیہ محبت کا ہے، جس میں رومیو جولیٹ، سسی پنوں اور ہیر رانجھا آتے ہیں۔ بیانیے کو کوئی بھی فرد ہائی جیک کرسکتا ہے اور مجھے جس کی فکر ہے وہ جعلی بیانیے کی ہے۔ اب بیانیہ پر ٹیکنالوجی کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے تیزی سے زیادہ افراد تک بیانیہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ انسان اور مشین میں فرق ختم کیا جارہا ہے۔ انسان کی سوچ کو ڈی کوڈ کرنے والی مشین بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کے شمولیت ہر شعبے میں بیانیہ تبدیل کررہی ہے۔ پاکستان کو ایک تبدیل بیانیے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نئے بیانیے کی اونرشپ حکومتی، ادارتی اور انفرادی سطح پر لینا ہوگی۔ اس بیانیہ میں ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن، انویشن اور خواتین کے حقوق کو شامل کیا جانا چاہیے۔ چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ پاکستان میں 65 فیصد بجلی کی پیداوار درآمدی ایندھن پر ہوتی ہے، مگر اب کوئی بھی نیا منصوبہ درآمدی ایندھن پر نہیں لگایا جائے گا۔ پہلے پاکستان میں بجلی کی طلب اور رسد کے حوالے سے منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تھی، تاہم اب ہم ہر سال طلب اور رسد کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔ بجلی کے شعبے میں ہول سیل مارکیٹ بنارہے ہیں، جس میں بجلی کی خرید و فروخت ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 15 ملین افراد بغیر بجلی کے رہ رہے ہیں۔ اس کے لیے مائیکرو گرڈ کا تصور دیا ہے کہ نجی شعبہ انہیں بجلی فراہم کرے گا۔ پاور ووتھ سیفٹی کے تحت نظام بہتر ہوا۔ کراچی میں 2 لاکھ سے زائد پولز کو ارتھ کیا گیا، اسی وجہ سے 8 گنا اضافی بارش کے باوجود کوئی فرد کرنٹ لگنے سے جاں بحق نہیں ہوا۔ سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ پاکستان میں 20 ملین سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے، جنہیں اسکول تک رسائی بھی نہیں ملتی۔ غربت کی وجہ سے زیادہ تر بچے دوسری جماعت کے بعد تعلیم جاری ہی نہیں رکھ پاتے۔ طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے ہم آہنگی نہیں۔ ہمیں تعلیمی قابلیت کے ساتھ مہارت نکھارنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے بہت سے مسائل ہیں، لیکن تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم سے پاکستان کو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو تعلیم کے حوالے سے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، خواتین کی تعلیم کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر این بی پی فنڈز ڈاکٹر امجد وحید کے کہا کہ اگر سرکاری اسکول بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دے سکتے تو کیش واؤچر دیا جائے تاکہ بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلوائی جاسکے۔ ہم جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں جب کہ انڈیا میں 20 سے 22 فیصد تعلیمی بجٹ ہے۔ ہمیں اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعلیم نظام کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا۔ آگاہی اور لیکچررکی بانی و صدر پریوش چوہدری نے کہا کہ آج کے بچے ٹیکنالوجی میں بہت آگے اور ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ آج کی نسل کا سوچنے کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ ہمارے مقابلے میں غریب ممالک کا تعلیمی نظام اچھا ہے، کیونکہ وہ اپنا تعلیمی بجٹ زیادہ رکھتے ہیں، تاہم پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بانی اور جنرل پارٹنر ٹیم اَپ وینچرز زوہیر خالق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن اس کے باوجود نوجوان اسٹارٹ اَپس بنا رہے ہیں۔ پاکستان مین فن ٹیک، ای ٹیک، ای لاجسٹک دیگر شعبہ جات میں کام ہورہا ہے۔ صدر اور سی ای او یو مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈکبیر نقوی نے کہا ک




``
اور بلی بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی خاتون نے مردوں سے دور رہنے کےلئے انگوٹھی کیوں پہنی؟؟ بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟
بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی !بھوکا ریچھ ساٹھ کیک ہڑپ کر گیا گدھا بازیاب،چور گرفتار پستہ قد روسی ٹک ٹاکر گرفتار