عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ کروں گا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

بدھ 03 اپریل 2024ء

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا،واضح کرتا ہوں اس معاملے پر زیرو ٹالرنس ہوگی،عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا تو میں اور تمام ساتھی کھڑے ہونگے،عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے، میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کیلئے پیش کروں گا،آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ بھی دے دیا چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس کی مرضی والا کام ختم،پہلے چیمبر میں جا کر بھی کیس لگ جاتے تھے، درخواستیں دائر ہونے سے پہلے میڈیا میں آنا بھی درست نہیں، کیا یہ بھی عدالت پر دبائو ڈالنے کا ایک طریقہ ہے؟اگر وکیل کہہ رہے ہیں کہ سوموٹو لیا جائے تو وہ وکالت چھوڑ دیں،میں کبھی پریشر نہیں لیتا،میرے فیصلوں سے بتائیں کہ پریشر میں کیا گیا ہے یانہیں، آج کل پروپیگنڈا بہت ہورہا ہے،جس دن 26 کو خط ملا اسی دن تمام ججز اور ہائیکورٹ چیف جسٹس سے ملا،منصور علی شاہ دونوں ملاقاتوں میں میرے ساتھ تھے، اس سے زیادہ چستی کیا ہوسکتی ہے،عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا،واضح کرتا ہوں اس معاملے پر زیرو ٹالرنس ہوگی، چیف جسٹس نے کہا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانے کا کیا،اٹھارہ ستمبر 2023 کو چار سال بعد فل کورٹ اجلاس ہوا تھا،عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا تو میں اور تمام ساتھی کھڑے ہونگے،عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے،فل کورٹ انتظامی معاملہ ہوتا ہے، وزیراعظم اور وزیرقانون سے ملاقات کا وہیں فیصلہ ہوا،ہماری رفتار دیکھیں فل کورٹ کے اگلے ہی دن وزیراعظم سے ملاقات کی،اٹارنی جنرل نے کہا وزیراعظم نے عدالت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی،عدلیہ سے کہا تھا کہ خود نام تجویز کرے جس پر نام دیے گئے تھے،ٹی او آرز کی منظوری سے پہلے تصدق جیلانی سے ٹی او آرز شیئر کیے گئے، تصدق جیلانی نے آمادگی ظاہر کی لیکن تاثر دیا گیا کہ حکومت کمیشن بنا رہی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تصدق جیلانی پر ذاتی حملے بھی کیے گئے اور سوشل میڈیا سے پریشر ڈالا گیا،جس انداز میں دبائو ڈالا گیا مجھے ان کا نام تجویز کرکے شرمندگی ہو رہی تھی،تصدق جیلانی نے مجھے اختیار دیا کہ معاملے کو حل کروں،میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں،یہ تاثر غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو دیدئیے ہیں،ہائی کورٹ ججز کا خط کئی مرتبہ پڑھا ہے اس کے کئی پہلو ہیں،خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے میں صرف اس کا چیئرمین اور ممبر ہوں،تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے، خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے،ججز کو دبائو ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آسکتا ہے،آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے، ججز نے خط میں کہا معاملے کی انکوائری کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے،انکوائری پولیس، ایف آئی اے یا پھر کمیشن کرسکتا ہے،ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کردیا ہے،کبھی کسی جج کو توہین عدالت کی کارروائی سے نہیں روکا،توہین عدالت کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ سمیت کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا ججز کے خط میں 19 مئی 2023 کی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے ملاقات کا بھی ذکر ہے، ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے وضاحت کردوں کہ تب میں سینئر ترین جج تھا میرے بعد جسٹس سردار طارق سینئر تھے، ہم دونوں سینئر ججز کو چھوڑ کر جسٹس اعجاز الاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا، وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلاسکتے،آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں حکومت کو نوٹس دینگے تواٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آجائیں گے،جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا،کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں،پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں ہم بھی احترام چاہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں زرا برابرکوتاہی نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے کہا یہ بات نہ کریں، لوگ شرط لگا رہےتھے کہ الیکشن نہیں ہونگے،الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا،سب سے ان کا کام کرائیں گے،کسی کا کام خود نہیں کرینگے،تین سو وکلاء کا خط چل رہا ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا ان سے غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟اس پر حکومت نے کیا کیا؟ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو،جسٹس اطہر من اللہ نےکہاعدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا،سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا،چیف جسٹس نے کہا چھہتر سال سے ملک کیساتھ یہ ہو رہا ہے،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے مرزا افتخار کیس کی بات کی تھی،باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے،چیف جسٹس نے کہا وہ کیس میرے متعلق ہے نہیں چاہتا تاثر جائے دباو ڈال رہا ہوں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا مجھےبات پوری کرنے دیں، یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، حکومت پر الزام لگا ہے کیا حکومت ہی اس کی تحقیقات کرے گی؟ اس معاملے میں جانے سے بہتر تجویز جسٹس منصور علی شاہ نے دی ہے، آئین کو ناقابل عمل بنایا جا رہا ہے،اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کیا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ یہ تاثر کیسے دیا جاسکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا،چیف جسٹس نے کہا آج کیا ہو رہا ہے خط میں ایسا کچھ نہیں ہے، میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کیلئے پیش کروں گا،سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے،مسئلہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کچھ نہ کرے تو ہم نے کیا کرنا ہے،ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن کوئی سسٹم تو بنانا ہی ہے، سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے، جسٹس جمال مندوخ




``
دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ گھر برائے فروخت،قیمت ستاون ارب روپےسے زائد آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے
ایران میں بنا بلیوں کا میوزیم گدھا بازیاب،چور گرفتار بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی لاس الگوڈونس،دانتوں کے ڈاکٹرز کے حوالے سے مشہور