سپریم کورٹ نے صحافیوں کو جاری ایف آئی اے کے نوٹس واپس لینے کا حکم دے دیا

پیر 29 جنوری 2024ء

صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت،سپریم کورٹ کا صحافیوں کیخلاف ایف آئی اے کے نوٹسز واپس لینے کا حکم، سپریم کورٹ نے طلب کیے گئے صحافیوں کےخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے زندہ قومیں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہیں، یہاں پر تو کہتے ہیں کہ مٹی پائو،پہلے والے سوموٹو میں تفصیلات لی جارہی تھیں کہ کتنے کیسز ہیں، یہاں تو بغیر کیسز کے ہی تشدد کیاجاتا رہا ہے،اسد طور پر تشدد کا کیا بنا؟ کیا اسد طور کا کیس فعال ہے یا سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا اسد طور پر تشدد کا مقدمہ درج ہوا تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا اسد طور کیا آپ ملزمان کو پہچانتے ہیں؟صحافی اسد طور نے جواب دیا ملزمان سامنے آئیں تو پہچان سکتا ہوں، میرے فلیٹ پر ملزمان موبائل استعمال کرتے رہے لیکن جیوفینسنگ نہیں ہوئی،ملزمان کے مطابق ان کا تعلق حساس ادارے سے تھا لیکن کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا، تین سال پرانی درخواست سے خود کو الگ کررہا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کیا آپ نے جھوٹے الزامات لگائے تھے؟اسد طور نے جواب دیا ایف آئی آر میں عائد الزامات پر قائم ہوں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کیس بھلے نہ چلائیں ہم آپ کو بنیادی حقوق دلوائیں گے،آپ پر دباو ہے تو کیس واپس نہیں لینے دینگے، مطیع اللہ جان کے کیس میں کیا ہوا؟سپریم کورٹ نے اسد طور اور مطیع اللہ جان کے کیسز میں وفاقی حکومت سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تنقید روکنے سے میرا کوئی فائدہ نہیں اگر حکومت یہ کر رہی ہے تو اسکے سخت خلاف ہوں،اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تنقید روک کر سپریم کورٹ یا میرا بھلا کررہے ہیں تو یہ غلط ہے،ایسا کرکے آپ ہمارا نقصان کررہے ہیں،حکومت صحافیوں کیخلاف کارروائی کرکے میرا نقصان کر رہی ہے،گالی گلوچ الگ بات ہے تنقید اصلاح کیلئے ہوتی ہے،فیصلے کو غیرآئینی اور غلط کہنا توہین عدالت نہیں ہوتا،اگر کوئی صحافی تشدد یا انتشار پر اکسائے تو الگ بات ہے، تنقید کی بنیاد پر صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات فوری واپس لئے جائیں،فیصلوں پر تنقید صحافی اور عام شہری بھی کرسکتے ہیں،صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا،ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے،ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگرہم سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں،جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا،کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا،جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا،عدالتی فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں،فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ملک کی عزت ختم ہوگئی ہے،سوشل میڈیا نے اداروں کو تباہ کر دیا ہے بہت سے لوگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے،ان لوگوں کا ذریعہ معاش ہی یوٹیوب پر لوگوں کو گالیاں دینا ہے،ایسے لوگوں کو ملک کی کوئی فکر نہیں ہوتی،چیف جسٹس نے کہا کچھ باتیں قائداعظم کی بھی سن لیتے ہیں،نفرت انگیز تقاریر کیساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں،ہتک عزت کیس ہوجائے تو پچاس سال فیصلہ ہی نہیں ہوگا، ‏پولیو ورکرز کو قتل کردیاجاتا ہے، خواتین کے سکولوں میں بم مارے جاتے ہیں،انتہاء پسند سوچ کیخلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو کے قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟جڑانوالہ میں دیکھیں کیا ہوا، سب نفرت کا نتیجہ ہے،ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اب یہ اژدھا بن گئے ہیں،خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے گالم گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بناء پر کارروائی نہ کرے،آزادی صحافت آئین میں ہے،میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں،عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا،سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں،تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ حملے پاکستان میں ہوئے ہیں،کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ کیا کسی صحافی نے اس بات کو اجاگر کیا ہے؟آزادی اظہار رائے اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ لوگوں کو مارا جاتا ہے،نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان نہیں آسکتیں اور ہم کچھ نہیں کرسکتے،ان کے پاس بندوق ہے اور ہمارے پاس قلم ہے، سرکاری مساجد میں تنخواہ لینے والے امام لوگوں کو یہ درس کیوں نہیں دیتے؟خواتین کو تعلیم سے روکنا اسلامی تعلیمات کےخلاف ہے،سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف گرفتاری اور مقدمات کے اندراج سے روک دیااٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی،عدالت نے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کیخلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرلی،عدالت نے حکم دیا بتایا جائے مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟آگاہ کیا گیا کہ ملزمان کا تعلق وفاقی حکومت کے ماتحت حساس ادارے سے ہے، بتایا گیا کہ صحافیوں کو نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں،تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے،معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی عدالت نے حکم دیا وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کیخلاف رپورٹ دو ہفتے میں فراہم کرے،کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔




``
گھر برائے فروخت،قیمت ستاون ارب روپےسے زائد دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔
بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ انٹرنیٹ سروس معطل،لیکن پاکستانی میڈیا انفلوینسر کی ٹویٹس،دہلی پولیس پریشان گدھا بازیاب،چور گرفتار آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے