سائفرکیس،چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی درخواست ضمانت اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسترد کردی

جمعه 27 اکتوبر 2023ء

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت مسترد کردی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت مسترد کردی۔جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اخراج مقدمہ کی درخواست بھی خارج کردی۔ کیس کی سماعت کے دوران دلائل کے میں ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں جرم کا ارتکاب کر کے اسے ملزم کی جانب سے تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہ تھے۔ یہ سائفر ایک خفیہ دستاویز تھی جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں۔ پراسیکیوٹرکا موقف تھا کہ اس جرم کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔ خفیہ دستاویزپبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنا حاصل نہیں۔ وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے کوئی اعتراف جرم نہیں کیا۔ انہوں نے پبلک کو کوئی سائفر نہیں دکھایا بلکہ علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 16 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے آج چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنا دیا۔ بیس صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں مقدمے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو کا اطلاق ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اور بظاہر گم کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کے مندرجات کو ٹوئسٹ کر کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ عدالت کےفیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ دفتر خارجہ کے سابقہ اور موجودہ افسران بالخصوص سائفر بھیجنے والے اسد مجید کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی سازش شامل نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری اور اخراج مقدمہ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ عمران خان کیس میں ایک شریک ملزم ہیں۔ صرف ایک شریک ملزم کی حد تک ایف آئی آر کالعدم نہیں ہو سکتی۔ شریک ملزم کی وجہ سے اخراج مقدمہ کا حکم نہیں دیا جاسکتا ۔ پراسیکیوشن کے مطابق سائفر عمران خان کےقبضے میں ہے۔ بلا شک و شبہ ان کیخلاف تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ سنگین نوعیت کے الزامات پر ضمانت نہیں بنتی۔ بادی النظر میں ملزم کا کیس سے تعلق بنتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق دفتر خارجہ کی پالیسی واضح ہے۔ پالیسی کے مطابق سائفر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے جسے غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ سائفر کو کچھ وقت کے بعد واپس فارن آفس جانا ہوتا ہے۔ عدالت کےفیصلے میں کہا گیا ہے کہ سائفر کیس میں وکیل کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی پابند تھے کہ وہ حکومت گرانے کے لیے غیر ملکی سازش سے عوام کو آگاہ کرتے۔ حکومت گرانے کی سازش سے عوام کو آگاہ کرنے کی دلیل میں وزن نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی بطور وزیراعظم فرائض سر انجام دینے کے بجائے سیاسی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں فرد جرم کے آرڈر کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے تحریری فیصلہ میں کہا کہ عدالت 23 اکتوبر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے فیصلے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتی۔ آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشن سے کسی قسم کا تعصب ظاہر نہیں ہوتا ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ شفاف ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے۔




``
لاس الگوڈونس،دانتوں کے ڈاکٹرز کے حوالے سے مشہور برگر کی قیمت سات سو ڈالر سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی
کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ ڈولفن بھی نشہ کرنے لگی؟ وینس کی گرینڈ کینال کا پانی سبز ہو گیا بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی