پاکستان میں جو کچھ ہوا نظر انداز نہیں کر سکتے ،ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پیر 09 اکتوبر 2023ء

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پاکستان میں جو کچھ ہوا آپ اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے،کیا آرٹیکل184(3) کا استعمال ٹھیک کیا گیا؟ اس سے پہلے کہ دنیا ہم پر انگلی اٹھائے میں خود نشاندہی کرتا ہوں،اگر سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے غلط کیا تو پارلیمنٹ کو تو غلط نہیں کرنا چاہیے،میں کہتا ہوں پارلیمان کی نیت اچھی ہے،ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،چیف جسٹس نے کہا آج مقدمہ کی سماعت کا آخری دن ہے، ہم وکلا کو سننا چاہتے ہیں،وکلا جو بھی کہیں گے ہم اس سے اپنے فیصلے میں اتفاق یا اختلاف کریں گے،عابد زبیری نے کہا میں نے تحریری نکات تیار کیے ہیں،چیف جسٹس نے کہا دلائل جمع کروانے کیلئے ہم نے مہلت دی تھی،اب کاغذات آرہے ہیں،کسی ملک کا قانون ایسے کاغزات جمع کروانے کی اجازت نہیں دیتا،فل کورٹ اس معاملے کو سن رہی ہے، آپ شاید معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے، ہم یہاں وکلا سے معاونت لینے کے لیے بیٹھے ہیں، وکیل نے نیوجرسی کی عدالت کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہاہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں،دینا ہے تو کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے،چیف جسٹس نے کہا آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانے کے لیے بااختیار ہے،اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں، جسٹس مظاہر نقوی نےکہا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون صرف سپریم کورٹ پر لاگو ہوتا ہے،سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں؟چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 184 (3) کی وضاحت کریں کہ کیا اس کا استعمال ٹھیک کیا گیا ہے؟کیا ہیومن رائٹس سیل کا کہیں آئین یا رولز میں ذکر ہے؟اب ہم رولز سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں، اس سے پہلے کہ دنیا ہم پر انگلی اٹھائے میں خود نشاندہی کرتا ہوں،اگر سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے غلط کیا تو پارلیمنٹ کو تو غلط نہیں کرنا چاہیے،یہ بتادیں آرٹیکل 184(3) کے تحت اختیارات کا استعمال کیسے استعمال ہوا؟ اس کے لیے نیو جرسی نہ جائیں بلکہ پاکستان تک ہی رہیں، پاکستان میں جو کچھ ہوا آپ اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے،چیف جسٹس نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ کیا آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کررہے ہیں؟وکیل نے جواب دیا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس کیا گیا تھا جس کے تحت پیش ہوا ہوں،اس بات سے متفق ہوں کہ ماضی میں آرٹیکل 184 (3) کا غلط استعمال ہوا ہے،چیف جسٹس نے کہاسپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟چینی کی قیمت مقرر کرنے کے معاملے کی سماعت کیلیۓ بھی 184/3 کا سہارا لیا گیا،اگر کوئی غلطی ہوئی تو اسے درست کرنے کی پہلی ذمہ داری عدلیہ کی تھی،عدلیہ کے بعد ذمہ داری پارلیمنٹ کی تھی، قواعد بنا کر آئین کے ارٹیکل 184 تین کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا، میں نے خود ایک معاملے کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے قواعد بنانے کا کہا تھا، آپ نے شروع میں پارلیمان کی نیت پر حملہ کیا،میں کہتا ہوں پارلیمان کی نیت اچھی ہے،ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہم نے 184(3) کے اختیارات آئین سے ہٹ کر استعمال کیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ممکن ہے پارلیمان کا قانون اچھا ہو یا برا،کیا پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کے دروازے کھول دیں؟ چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ کچھ کرے تو آپ کو اعتراض ہے لیکن فرد واحد آ کر ترمیم کر دیتا ہے تو وہ درست ہے، اگر پارلیمنٹ کچھ اچھا کر رہی ہے تو اسے ختم نہ کریں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہم مستقبل کے لیے سادہ اکثریت سے ترمیم کے دروازے کھول رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا مستقبل کو چھوڑیں آج کی بات کریں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پشاور ہائیکورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے،اہم کیسز کے مقرر نہ ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟جسٹس منیب اختر نے کہا اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے؟ نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمان ماسٹر آف روسٹر بن جائے گی،جسٹسں منصور علی شاہ نے کہا دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں، اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے تو اس سے کیس کا نتیجہ متاثر کرسکتا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا اگر ایک شخص نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو تین بھی ہو سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا یہ پیغام اس عدالت سے نہیں جانا چاہیے کہ آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے، جو قانون اور آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں،ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے ساتھ دو کو پائلٹ ہی لگائے گئے، ہم اپنے سائے اور کو پائلٹس سے گھبراتے کیوں ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ ایکٹ سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرنا عدلیہ میں مداخلت نہیں تو اور کیا ہےجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں؟ اگر پارلیمنٹ مجاز ہے تو پھر اسے ڈکٹیشن نہ کہیں،کیس کی مزید سماعت منگل کو ہوگی۔




``
برگر کی قیمت سات سو ڈالر سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف !بھوکا ریچھ ساٹھ کیک ہڑپ کر گیا
پستہ قد روسی ٹک ٹاکر گرفتار بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ