عدالت چودہ مئی کے فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

جمعه 05 مئی 2023ء

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیےسنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے نظرثانی اپیل تک دائر نہیں کی، حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی ہے،پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے،معاشی، سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ ساتھ آئینی بحران بھی ہے،کل بھی آٹھ لوگ شہید ہوئے، حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا،معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کرائیں، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے،حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے،عدالت تحمل مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،قانون پر عملدرآمد کیلئے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، چیف جسٹس نے کہا حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معائدہ پر زور دیا گیا، عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے،آئی ایم ایف معائدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے،اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کیلئے آئین چاہ ماہ کا وقت دیتا ہے، کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دیں گے، کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟ آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے،کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے آئین استعمال کرسکتے ہیں،عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا،عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے، ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں، جو بات یہاں ہورہی ہے اس کا لیول دیکھیں، فاروق نائیک نے کہا عدالت کو 90 روز میں انتخابات کے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، چیف جسٹس نے کہا 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا، کبھی عدالتی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی،آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کررہا، خواجہ سعد رفیق نے کہا کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا، آئین 90 دن کے ساتھ شفافیت کا بھی تقاضا کرتا ہے،صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا،اگر حکومت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے، کئی ماہ سے آرٹیکل 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التواء ہے،چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہورہی ہے،اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے،پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی،عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سیکورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا،کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے، نیک نیتی دکھانے کیلیے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، سیکورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی، 8 اکتوبر تک سیکورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی، صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے، بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے، خواجہ صاحب آپ کی باتوں میں وزن لگ رہا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے،ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں، سعد رفیق بولے سوموٹو کے نتیجے میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی، چیف جسٹس نے کہا آپ کے علاوہ کوئی سنجیدہ نقطہ نہیں اٹھانا چاہتا ہے، ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے،دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیے،امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے تو، کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے، اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے، شاہ خاور نے کہا شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں ان کے نمائندے موجود ہیں،پارٹی لیڈران کیلئے سیاسی قائدین سے بات کریں، تحریک انصاف نے 14مٸی کو انتخابات کے حکم پرعملدرآمد کی استدعا کردی،شاہ محمود قریشی نے کہا حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا مؤقف دہرایا ہے، چیف جسٹس نے کہا حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا لیکن اسے سن لیا، پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے،عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں، کیا دو یا تین دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا حکومت کہتی تھی بارہ جماعتیں ہیں مشاورت کیلئے وقت دیں، آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیشرفت نہیں ہورہی، چیف جسٹس نے کہا آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے نہ سننا چاہتے ہیں،اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آجائیں، مذاکرات کا معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ رہے ہیں،عدالت مناسب حکم جاری کرکے دیگر اہم امور پر توجہ دے گی،کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔




``
فیلکن نیٹ،جسامت میں چھوٹا لیکن خطراناک پرندہ کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی
سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟ وینس کی گرینڈ کینال کا پانی سبز ہو گیا بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ برگر کی قیمت سات سو ڈالر