سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت ،عدالت نے مارشل لاء کے نفاذ پر سوالات اٹھا دیئے

منگل 20 فروری 2024ء

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوصدارتی ریفرنس کی سماعت،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئےکیا ہم اس پہلو کونظرانداز کرسکتے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف کیس چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا،مارشل لاء فوج بطور ادارہ نافذ نہیں کرتی،مارشل لاء انفرادی اقدام ہوتا ہے،ہم ماضی کو دیکھ رہے ہیں لیکن مستقبل کو مدنظر نہیں رکھ رہے،کیا ادارے کو بھی لکیرنہیں کھینچی چاہیے،کیا سپریم کورٹ کو بھی طے نہیں کرناچاہیے، چیف جسٹس کی سربراہی میں نورکنی بینچ نےصدارتی ریفرنس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے کہاہمارا فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے،ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے،دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی،ہم اس کیس میں لکیرکیسے کھینچ سکتے ہیں؟کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنےکو تسلیم کرنا ہے،عدالتی معاون مخدوم علی خان نےکہا ایک جج نے انٹرویو میں کہاان پر دباؤ تھا،چیف جسٹس نے کہا یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا،اگر میں دباؤ برداشت نہیں کرسکتا تو مجھے عدالتی بنچ سےالگ ہوجانا چاہیے،ایک شخص کہہ سکتاہےکہ کوئی تعصب کاشکارہے،ہوسکتا ہے دوسرایہ رائے نہ رکھے، جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں پروسس درست اپنایاگیایا نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا یہ کیس حتمی ہوچکا ہے،کیا ہمیں یہ سوال کسی اپیل میں طےنہیں کرناچاہیےچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کیا ہم اس پہلو کونظرانداز کرسکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لاتھا،مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اپنامفادتھا، مخدوم علی خان نےکہا نسیم حسن شاہ نے جسٹس مشتاق اور بھٹو کے اختلافات پر بات کی،نسیم حسن شاہ نےکہا مشتاق صاحب بھٹو سے 8 سینئر ججز کو نظر انداز کر کے جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنانے پر ناخوش تھے،چیف جسٹس نے کہا یہ تو وہ دوسرے ججوں کی بات کررہے ہیں،کچھ ایسا بتائیں جس میں انہوں نے اپنی بات کی ہو،وہ کہاں کہا گیا کہ مجھ پر فیصلے کیلئے دباو تھا؟مخدوم علی خان نےجواب دیاوہ اس کیس کیلئے مخصوص نہیں ایک مجموعی تناظر میں تھا،نسیم حسن شاہ نے کہا مشتاق صاحب کو اس بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، شک کا فائدہ مل سکتا تھا مگر کچھ ہماری کمزوری تھی کچھ یحییٰ بختیار نےہمیں ناراض کر دیا،جسٹس نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے وکیل نے سزا کم کرنے پر دلائل نہیں دیئے اور ججز کو ناراض کیا تھا،چیف جسٹس نےکہاوکیل پر کیسے مدعاڈالاجاسکتاہے؟ناراض کردیا تھا تو کیس سننا چھوڑ دیتےیاانصاف کرتے،ناراض ہم بھی کئی بارہوجاتےہیں مگر یہ تونہیں کہ فیصلہ الٹ دیں،وکیل کے کنڈکٹ کی سزا موکل کو نہیں ملنی چاہیے،بھٹو کے وکیل سزا معطلی کی بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کرتے؟ اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا نہ بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے، مخدوم علی خان نے کہا دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا ایسا نہیں ہونا چاہیے،چیف جسٹس نےکہادراب پٹیل بدقسمتی سےنظرثانی متفقہ طورپرخارج کرنےوالےبنچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دییےکیا یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائیکورٹ نے کیا اور ایک اپیل کا حق چھینا؟کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سےدی جاسکتی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیے، آپ مارشل لاء پر زیادہ بات نہیں کرتے، آپ عدالتی نظائر ہی بتا دیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا ہم مارشل لاء دور میں دیے گئے ہر فیصلے کو دیکھیں؟ سپریم کورٹ میں کافی کیسز ہیں، پارلیمنٹ نے بھی مارشل لاء کے فیصلوں کی توثیق کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مارشل لاء فوج بطور ادارہ نافذ نہیں کرتی، مارشل لاء انفرادی اقدام ہوتا ہے، ہم ماضی کو دیکھ رہے ہیں لیکن مستقبل کو مدنظر نہیں رکھ رہے، کیا ادارے کو بھی لکیر نہیں کھینچی چاہیے، کیا سپریم کورٹ کو بھی طے نہیں کرنا چاہیے، جسٹسں منصور علی شاہ نے کہا دباؤ سے متعلق صرف ایک انٹرویو ہے، انٹرویو میں عمومی بات کی گئی ہے،کیا جن صاحبان پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہیے؟ کیا اس کیس میں اختلاف کرنےوالوں کوبعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟ریفرنس کی سماعت 26 فروری تک ملتوی کردی گئی۔




``
دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ فیلکن نیٹ،جسامت میں چھوٹا لیکن خطراناک پرندہ سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟ لاس الگوڈونس،دانتوں کے ڈاکٹرز کے حوالے سے مشہور
اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف موبائل مل گیا،لیکن ڈیم خالی ہوگیا آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے اور بلی بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔