ملٹری کورٹس کا معاملہ،عدالت کو آ گاہ کئے بغیر ٹرائل شروع نہ کئے جائیں،سپریم کورٹ کا وفاقی حکومت کو حکم

جمعه 21 جولائی 2023ء

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت،سپریم کورٹ نےحکومت کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کرنے سےروک دیا، سپریم کورٹ نے حکم دیا عدالت کو آگاہ کیے بغیر ٹرائل شروع نہ کیےجائیں،اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہونے سے متعلق عدالت کو یقین دہانی کروادی۔۔ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کے معاملے پر قانون سازی کے لیےایک ماہ کی مہلت بھی مانگ لی،دوران سماعت درخواست گزار کےوکیل کا ضیاء الحق دورکاحوالہ۔۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ مارشل لاء ہے نہ ہی ضیاء الحق کا دور، مارشل لاء کا معاملہ آیا تو عدالت مداخلت کرےگی،اگر یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی تو متعلقہ افراد کو طلب کرینگے، چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نےکیس کی سماعت کی،اٹارنی جنرل نے کہا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئے انتہائی احتیاط سے ملزمان کو نامزد کیا گیا،ہزاروں مظاہرین میں سے صرف 102 کا ٹرائل فوجی عدالت میں کرنے کا فیصلہ ہوا،جس انداز میں حملے ہوئے اس کا ردعمل بھی سخت ہی ہوناچاہیے،فوجی تنصیبات پر حملوں کی صورت میں ہی آرمی ایکٹ کااطلاق ہوتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا تو فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے ریاست چاہے بھی تو شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرسکتی،ایسا ممکن نہیں ہے کہ جب چاہا بنیادی حقوق فراہم کر دیےجب چاہا واپس لے لیے اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ملزم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعدکورٹ مارشل کا مرحلہ ہوتا ہے، عدالت قائم ہوتے ہی ملزم کو الزامات اور حق دفاع کی تفصیلات بتائی جاتی ہیں، ملزم کو 24 گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے وہ دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا ملزم کو اپنے دفاع کیلئے چند گھنٹے کا وقت دینا بہت کم ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کسی ملزم کیخلاف ایسا الزام نہیں کہ سزائےموت ہوسکے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمر قید کےکتنے ملزمان ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا آرمی ایکٹ کے تحت عمر قید نہیں 14 سال سزا ہوتی ہے،بادی النظر میں اب تک سزائے موت یا چودہ سال سزا کاکوئی کیس نہیں ہے، عدالت نے ایک سوال فیصلوں کیخلاف اپیل کا بھی پوچھا تھا، ملزمان کو بامعنی اپیل کا حق دینے پر غور کیلئے مزید وقت درکار ہے،اپیل کا حق دینے کے معاملے پر بہت احتیاط سے غور کرناہوگا،بامعنی اپیل کی فراہمی پرغور کیلئےحکومت کو وقت درکار ہے،ایسی قانون سازی نہیں چاہتے جس کا فائدہ ملک دشمنوں یا جاسوسی کرنے والوں کو ہو،چیف جسٹس نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں حکومت نو مئی کے ملزمان کو اپیل کا حق دینےپرغورکرناچاہتی ہے، اپیل کا حق قانون سازی کے ذریعےہی دیاجاسکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا ایک یقین دہانی آپ نے یہ بھی کرائی ہے کہ فیصلوں میں وجوہات تحریر ہونگی،آپکی دوسری یقین دہانی کھلی عدالت میں ٹرائل اور مرضی کا وکیل فراہم کرنےکی ہےاٹارنی جنرل نےجواب دیا کھلی عدالت کا مطلب ہے ملزمان کے اہلخانہ عدالت میں موجود ہونگے،ٹرائل شروع ہونے پر آگاہ کرنے کےعدالتی حکم پرعمل کرینگے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ملزمان پر ذہنی و جسمانی تشددنہیں ہوناچاہیے، کیا وکلاء کاوفد ملزمان سے ملاقات کرسکتا ہے؟اٹارنی جنرل نےجواب دیاوکلاء کا وفد نہیں لیکن ملزمان کے اہلخانہ ملاقات کرسکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا عدالت کسی ریٹائرڈجج کو اپنا نمائندہ بھی مقرر کرسکتی ہےجو ملزمان کی حالت کا جائزہ لے، چاہتے ہیں زیرحراست افراد کوتمام قانونی حقوق ملیں،کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔




``
موبائل مل گیا،لیکن ڈیم خالی ہوگیا سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار گدھا بازیاب،چور گرفتار دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔
آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے پستہ قد روسی ٹک ٹاکر گرفتار سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟ وینس کی گرینڈ کینال کا پانی سبز ہو گیا