بلوچستان میں مسلح شورش کا سامنا ہے،دہشتگرد لوگوں کی زندگیوں کے پیچھے پڑے ہیں،نگران وزیراعظم

بدھ 28 فروری 2024ء

سماعت کے آغاز اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 4 طلباء کو ٹریس کرنا باقی ہے انہیں تلاش نہیں کیا جاسکا جس پر طلباء کی وکیل ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق 9 طلباء مسنگ ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف بلوچ طلباء کی حد تک کیس دیکھ رہے ہیں، ہمیں بتایا گیا کہ کچھ ٹی ٹی پی کا حصہ بن چکے ہیں، اور کچھ طلباء گھر آ گئے ہیں کچھ کو تلاش کیا جا رہا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے ادارے قانون سے بالاتر تر نہیں ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیاکہ پرانی لسٹ کے علاوہ بھی نئے لوگ غائب ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پرانے 12 میں سے8 لوگ غائب تھے جن میں ابھی تین رہتے ہیں، 9 افراد سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے، چار افراد کی بازیابی سے متعلق ہمیں مزید وقت درکار ہے، 26 افراد لاپتہ تھے جن میں سے 2 افراد افغانستان ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیر اعظم سے مکالمہ کیا کہ آپ نے عدالت میں پیش ہوکر ثابت کیا کہ آپ بھی قانون کو جوابدہ ہیں۔نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، ہمارے بلوچستان کےایک سابق چیف جسٹس کو نماز مغرب کےوقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، نان اسٹیٹ ایکٹر نے اپنی مرضی کی انکوائری نہ ملنے پر یہ قتل کیا۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگی بالکل ایک مختلف معاملہ ہے، ریاستی اداروں کو معلوم ہے ملک کیسے چلانا ہے، لیکن لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرکے ملک نہیں چلانا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں، میں قانون کے مطابق جواب دہ ہوں ، آپ نے ہمیں بلایا میں پہنچ گیا، میں بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں ، ہم بلوچستان میں مسلح شورش کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، روڈ کنارے لوگوں کو مارا گیا مگر مجال ہے کسی کو انسانی حقوقِ یاد آئے، بسوں سے اتار کر مارا جاتا ہے، چوہدری نام ہے، گجر نام ہے گولی مار دی جاتی ہے، دہشتگردوں کے ہاتھوں 90 ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں، نان اسٹیٹ ایکٹرز بلوچستان میں ہماری زندگیوں کے پیچھے پڑے ہیں، مجھے کسی نے کہا کہ آپ بلوچستان کیسے جائیں گے، بلوچستان میں نسلی پروفائلنگ کرکے قتل کیا جاتا ہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز لوگوں کو قتل کرتے ہیں اس پر کیوں نہیں بولتے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا اقوام متحدہ کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں، آپ لاپتہ ہوگئے ہیں جس پر جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟، نگران وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میں مثال دے رہا ہوں میں انوار کا نام لے لیتا ہوں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں، پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیررازم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ بلاشبہ یہ جنگ ہے اور ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں لیکن قانون ایک ہے اور سب کے حقوق ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بیس سال سے لڑائی چل رہی ہے، آئندہ پارلیمنٹ آئے گی وہ بھی دیکھے گی، آئے روز کے الزامات سے ریاست کو نکالنا چاہیے، ہم نے اس لیے ہتھیار نہیں اٹھایا کہ ریاست نےہمارے حقوق کی گارنٹی دی ہے، آئین مجھے سیکیورٹی کی گارنٹی دیتا ہے، آئین مجھے ریاست سے بلا مشروط وفاداری کا بھی پابند کرتا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کسی نان اسٹیٹ ایکٹر کو کوئی عدالت بھی تحفظ نہیں دے رہی، قانون کی پاسداری ہر شہری کا حق ہے، اس بات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے 59 لوگوں میں سے صرف 8 لوگ رہ گئے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم سے مکالمہ کیا کہ آپ نے مثال دی تو میں آپکو کچھ مثالیں بھی دے دوں، بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا جس پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ وکیل ایمان مزاری نے موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں کبھی بھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، کہ جب بات لاپتہ افراد کی ہو تو بات دہشت گردوں کی طرف چلی جائے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے، وزیراعظم نے عدالت میں بیان دے دیا اور یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا، یہ معاملہ وزیراعظم اور عدالت کے درمیان تھا ، درخواستگزار، وزیراعظم کو جواب نہیں دے سکتیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ وزیراعظم کو جواب نہیں دے رہیں ان کا موقف تو پہلے سن لیں جس پر وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ہم بھی شدت پسندی کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے، کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اور آپ کی اولین کوشش تھی لاپتہ لوگ گھروں کو پہنچ جائیں، درخواست پر کارروائی آگئے نہ بڑھتی تو لوگ بازیاب نہ ہوتے، ہمیشہ کوشش رہی ہے رہا ہونے والے بھی عدالت میں آکراپنا موقف دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 لوگ جو سی ٹی ڈی کے پاس ہیں ان کے نام عدالت کو فراہم کردیئے ہیں، چاہتے ہیں نئی حکومت آجائے اور اسے تھوڑا وقت مل جائے جس پر جسٹس محسن اختر نے کہا کہ بالکل آئندہ سماعت کے لیے تھوڑا وقت دیں گے۔ بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عدالت نے جو کمیٹی تشکیل دی اسکی رپورٹ جمع کروا دیں۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں کل ٹی ٹی پی جوائن کر کے مارا جاتا ہوں تو گھر والے بھی روئیں دھوئیں گے، فیصلہ ایک شخص کرتا ہے اور اسکے نتائج دوسروں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، یہ بڑا آسان ہے کہ آپ لواحقین کے نام پر آ کر کہنا شروع کر دیں۔ جسٹس محسن اخترکیا




``
انٹرنیٹ سروس معطل،لیکن پاکستانی میڈیا انفلوینسر کی ٹویٹس،دہلی پولیس پریشان آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی دولہے کی شادی سے بھاگنے کی کوشش ناکام
دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ گھر برائے فروخت،قیمت ستاون ارب روپےسے زائد لاس الگوڈونس،دانتوں کے ڈاکٹرز کے حوالے سے مشہور برگر کی قیمت سات سو ڈالر