آڈیو لیکس کمیشن کیس،حکم امتناع برقرار،بنچ پر اعتراض ، سپریم کورٹ نےفیصلہ محفوظ کر لیا

منگل 06 جون 2023ء

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی،درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے کہا توہین عدالت کی درخواست پر اعتراضات کیخلاف چمبر اپیل دائر کی،تمام متفرق درخواستوں کو نمبرز لگے ہیں میری اپیل پر نمبر نہیں لگا،چیف جسٹس نے کہا آپ کو معلوم ہے درخواست پر اعتراض کیا لگا تھا؟توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور متعلقہ شخص کے مابین ہوتا ہے، آپ نے ججز پر توہین عدالت کا الزام لگایا ہے،عمومی طور پر ججز کو توہین عدالت درخواستوں میں فریق نہیں بنایا جاتا،مناسب ہے پہلے درخواست پر اعتراضات کو دور کریں اٹارنی جنرل نے بنچ پر اعتراض کی درخواست پر دلائل دیئے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا چیف جسٹس کا عہدہ آئینی ہے جس کے انتظامی اختیارات بھی ہوتے ہیں، چیف جسٹس دستیاب نہ ہوں تو آئین کے تحت قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر ہوتا ہے، چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں کیے جا سکتے،چیف جسٹس نےہی فیصلہ کرناہے کہ کمیشن کیلئے ججز دستیاب ہیں یا نہیں، مفادات کا ٹکرائو ہو بھی تو چیف جسٹس آفس ہی فیصلہ کرے گا کیونکہ یہ آئینی عہدہ ہے، اٹارنی جنرل نے کہا ججز ضابطہ اخلاق کے تحت موجودہ بنچ کے کچھ ممبران کیس نہیں سن سکتے، چیف جسٹس نے کہا کیا آپ اس نقطے پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں؟اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے،چیف جسٹس کی موجودگی میں پوچھے بغیر ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا گیا، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے اس پر دلائل دیں، اٹارنی جنرل بولے چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس منیب اختر کا آڈیو لیکس سے تعلق ہے آپ تینوں ججز کیس نہ سنیں، لیک ہونے والی آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آپ کا کیس یہ ہے کہ آڈیوز بعدالنظر میں درست ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا وفاقی حکومت نے حقائق جاننے کے لیے کمیشن بنایا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں یہ وفاقی حکومت خود نہیں جانتی،آڈیو لیکس کے بعد وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کی، اٹارنی جنرل نے کہا وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کو وفاقی کابینہ کا موقف نہیں سمجھا جاسکتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کیا قانونی طور پر درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتہ وہ بنچ پر اعتراض اٹھائے؟وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟ ایسے بیان کے بعد تو وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا،عام طور پر وزراء کے بیانات کو حکومت کی پالیسی سمجھا جاتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے،پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہا یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کا نام لے کر آڈیو بنا دو، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتہ کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟کون یہ سب کر رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بولے کابینہ نے آڈیوز کو مبینہ قرار دیتے ہوئے کمیشن تشکیل دیا، چیف جسٹس نے کہا ججز کو بدنام کرکے معاملہ حقائق جاننے کیلئے بھیج دیا گیا،واہ کیا خوبصورتی سے یہ کام کیا گیا، ججز کی تضحیک کی آخر کیا وجہ تھی؟ کابینہ نے خود کو ایسے بیانات سے الگ کیوں نہیں کیا؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے بے نظیر بھٹو کیس میں 7 ججز نے فیصلہ دیا،اس کیس کو سننے والے چار ججز کی آڈیو ریکارڈنگ ہوئی،کیا ان ججز کو پھر وہ کیس سننا چاییے تھا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا بے نظیر بھٹو کیس میں ججز پر کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا تھا، بنچ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کر لئے، چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل نے بنچ پر اعتراضات سے متعلق اچھے قانونی نکات اٹھائے ہیں،ہم اس سے متعلق سوچیں گے، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی




``
اور بلی بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈولفن بھی نشہ کرنے لگی؟ ایران میں بنا بلیوں کا میوزیم آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے
چھیالیس سالہ خاتون ٹیٹوز کا عالمی ریکارڈ بنانے کی خواہاں !بھوکا ریچھ ساٹھ کیک ہڑپ کر گیا کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف