پنجاب ،خیبرپختونخواہ انتخابات از خود نوٹس،فیصلہ کل سنایا جائے گا

منگل 28 فروری 2023ء

پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات از خود نوٹس کی طویل سماعت کے بعد فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے انتخابات کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرکے عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کردی، عدالت نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم فیصلہ کربھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جمہوریت کا تقاضا ہے سیاسی جماعتیں لچک دکھائیں، قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئے گا، چیف جسٹس نے کہا آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں، عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے، وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو ن لیگ پیپلزپارٹی جے یو آئی نے الیکشن کی تاریخ دینے سے انکار کردیا،چیف جسٹس نے کہا موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں،عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے، فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست واپس لے لی، صدر مملکت نے کے پی میں انتخابات کی تاریخ کی ایڈوائس واپس لینے کا فیصلہ کر لیا، صدر مملکت کے وکیل نے کہا صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیر کیوں کی؟شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیر ہوئی ہو، گورنر انتحابات کی تاریخ کے لیے کس سے مشاورت کریں گے؟ عابد زبیری نے جواب دیا مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے تو کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدر مملکت کس قانون کے تحت خطوط لکھ رہے ہیں؟ عابد زبیری نے جواب دیا صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین میں تو کہیں مشاورت کا زکر نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کرینگے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں، صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے، سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا،ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا،الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے اٹارنی جنرل نے کہا انتحابات نوے روز کی مدت میں ممکن نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے نیت ہو تو راستہ نکل ہی جاتا ہے،الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے،آئین پر عملدرآمد ہر صورت ضروری ہے، انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر نے کرنا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کردیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کررہا ہے، اٹارنی جنرل بولےنوے دن سے تاخیر کی عدالت اجازت دے سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توثیق کرے گی،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تاریخ مقرر کرنے کیلئے پارلیمنٹ آج قانون بنا لے، کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر زمہ داری دے دیتے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے وزیر اعلیٰ کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے،حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی عملدرآمد ہوتا ہے،انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے،الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا، زمینی حقائق دیکھ کر ہی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے،ایک نقطہ نظر ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرے،الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے،الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں،اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں،نظام کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں،انتخابات کروانا لازم ہے،اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے،عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کرسکتی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آئین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا،کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا،عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابات کی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے،آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے،آرٹیکل دو سو چون لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو،قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے،الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا،حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے،پہلی بار ایسی صورتحال ہےکہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کی تاریخ تو دیں ہوسکتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں فنڈز بھی آجائیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ،فیصلہ بدھ کو سنایا جائیگا ۔




``
دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ دنیا کا سب سے چھوٹا،کیسا اور کہاں واقع ہے جانیئے۔۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ سروس معطل،لیکن پاکستانی میڈیا انفلوینسر کی ٹویٹس،دہلی پولیس پریشان لاس الگوڈونس،دانتوں کے ڈاکٹرز کے حوالے سے مشہور
فیلکن نیٹ،جسامت میں چھوٹا لیکن خطراناک پرندہ سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟ دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی