پنجاب اسمبلی انتخابات از خود نوٹس،سپریم کورٹ کے دو ججز کا اختلافی نوٹ جاری

پیر 27 مارچ 2023ء

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی، عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اسکی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو،ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا، آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار غیر معمولی، صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کا ہے، آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے، آئینی درخواستیں مسترد اور سوموٹو کارروائی ختم کی جاتی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں سے اتفاق کرتے ہیں، ججز کو انکی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں،دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑ دیا،دونوں ججز کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا، رولز بنا کر چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا ہوگا، اختیارات ریگولیٹ کرنے سے شفافیت آتی ہے،وکلاء محاذ کیس میں سپریم کورٹ کہ چکی غیر معمولی اختیار استعمال کرنے کیلئے معتدل پالیسی بنانی ہوگی،چیف جسٹس کو بنچز تشکیل دینے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں، عدالت دوسرے اداروں کو صوابدیدی اختیارات ریگولیٹ کرنے کا کہتی رہی ہے، بدقسمتی سے سپریم کورٹ خود صوابدیدی اختیارات ریگولیٹ نہیں کر سکی، چیف جسٹس کے سوموٹو اور بنچز تشکیل دینے کے اختیارات کی وجہ سے عدالت کی تکریم میں کمی ہوئی،چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدالت کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحیحی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں سے اتفاق کے بعد یہ فیصلہ اختلافی نہیں رہا، یقین ہے کہ ازخودنوٹس ختم کرنے کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے عدالتی حکم بن گیا ہے،چار تین کا فیصلہ ماننا تمام اداروں پر لازم ہے،چیف جسٹس کے ون مین شو والے اختیارات پر نظرثانی کا یہ بہترین وقت ہے،تمام ججز کی منظوری سے رولز بنائے جائیں،رولز سوموٹو لینے، بنچز تشکیل دینے اور مقدمات مقرر کرنے کے اختیارات پر بنائے جائیں، سماعت شروع ہو جائے تو بنچز کی تشکیل اور تبدیلی کا چیف جسٹس کو انتظامی اختیار نہیں رہتا، ابتداء میں ہی حتمی فیصلہ دینے کا مطلب جج کا بنچ سے الگ ہونا یا سماعت سے معذرت نہیں ہوتا،کاز لسٹ جاری ہوجائے تو چیف جسٹس بنچ تبدیل نہیں کر سکتے، بنچ میں اختلافی آواز دبانے کی کوشش سے غیرجانبدار عدالتی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی، دو ججز کو بنچ سے الگ کرنے کے چیف جسٹس کے فیصلے کا اُنکے عدالتی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بنچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی فیصلہ تھا تاکہ باقی پانچ ججز مقدمہ سن سکیں، بنچ کی ازسرنو تشکیل دونوں ججز کے عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کر سکتی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی خود بنچ سے الگ ہوئے تھے،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ سے نکالا نہیں گیا تھا، جسٹس یحیحی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے الگ کرنا انہیں بنچ سے نکالنے کے مترادف ہوگا،ججز کو انکی مرضی کے بغیر بنچ سے نکالنے کا اختیار نہ چیف جسٹس کو ہے نہ ہی قانون میں اسکی اجازت، اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اختلافی نوٹ دینے والے دونوں ججز پانامہ کیس کی دیگر کارروائی کا حصہ نہیں بنے، پانامہ کے حتمی فیصلے میں پانچوں ججز موجود تھے،شروع میں حتمی فیصلہ دینے والے ججز کو پانامہ بنچ سے الگ تصور نہیں کیا گیا تھا، پانامہ کیس میں ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا،پانامہ کیس میں فیصلہ تین ججز کا تھا، نظرثانی تمام پانچ ججز نے سنی۔




``
بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف گھر برائے فروخت،قیمت ستاون ارب روپےسے زائد سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟
دنیا کا سب سے چھوٹا،کیسا اور کہاں واقع ہے جانیئے۔۔۔۔۔۔ کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی