سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت،جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات اٹھا دیئے

منگل 12 دسمبر 2023ء

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف صدارتی ریفرنس کی گیارہ سال بعد سماعت، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اتنے لمبے عرصہ تک کیس دوبارہ فکس نہ ہونے پر بطور چیف جسٹس پاکستان معذرت چاہتا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی،بلاول بھٹو زرداری نے فریق بننے کی درخواست دے دی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتا ہے، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا، چیف جسٹس نے کہا ہم آپ کو ورثاء کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور سیاسی جماعت کے طور پر بھی، احمد رضا قصوری بولے مجھے بھی سنا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے،کیس کی سماعت لائیو لنک سے نشر ہو رہی ہے، براہ راست کارروائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کاروائی لائیو ہوگی،آپکی درخواست آنے سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا، چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا مجھے کوئی ہدایات نہیں ملی کہ یہ ریفرنس نہ سنا جائے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے صدراتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں لیا گیا، ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے،دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذرت کی اس کے بعد نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا،یہ ریفرنس کب دائر کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا یہ ریفرنس 2011 میں سابق صدر آصف زرداری نے بھجوایا، آصف علی زرداری کے بعد دو مزید صدور آئے،ریفرنس واپس نہیں لیا گیا، چیف جسٹس نے کہا ہم دیکھیں گے جو عدالتی معاون دستیاب نہیں ان کے متبادل کون ہوں گے، وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی حامی بھرلی، چیف جسٹس نے کہا عدالت کی معاونت کیلئے مشاورت کے بعد مزید نام دیں گے، اعتزاز احسن نے عدالت کی معاونت کرنے سے معذرت کرلی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی درخواست بھی خارج ہو چکی،عدالت ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم ہوئے معاملے کو دوبارہ کھولے؟ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں، کیا کل کوئی فریق آکر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے، یہ بہت اہم سوال ہے، کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے،پورا ریفرنس ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے،پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا اور نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، اٹارنی جنرل ہمیں ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر مطمئن کریں،جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے، عدالت نے حکم نامے میں کہا اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کبھی واپس لیا گیا؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریفرنس نہ پہلے واپس لیا گیا نہ موجودہ حکومت نے واپس لیا، ریفرنس میں مقرر کیے گئے معاونین کا انتقال ہوچکا ہے،ایک معاون علی احمد کرد عدالت میں موجود ہیں، معاونت پر بھی رضا مند ہیں،مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے بتایا ہے کہ وہ معاونت کے لیے تیار ہیں،خواجہ حارث،سلمان صفدر ، رضا ربانی ، خالد جاوید ، ذاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کرتے ہیں،جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے،کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے،معاملے کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی ماہرین کی رائے کیا ہوگی، عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں، ریفرنس پر سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی




``
ڈولفن بھی نشہ کرنے لگی؟ سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی وینس کی گرینڈ کینال کا پانی سبز ہو گیا
موبائل مل گیا،لیکن ڈیم خالی ہوگیا اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟