ریکوڈک کیس ہو یا ذوالفقار علی بھٹو ہم سے غلطیاں ہوئیں،عدالت کے حقوق پر پارلیمان وار کرتی تو از خود نوٹس لیتے،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پیر 18  ستمبر 2023ء

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ریکوڈک ہو یا ذولفقار بھٹو کیس ہم سے غلطیاں ہوئیں، ہمارا مسئلہ ہے انا جو بڑی بن گئی،مان لیں ہم نےغلطیاں کیں ہیں، ہم نے مارشل لا کی توثیق کی،ہمیں ملک کا بھی سوچنا چاہیے،درخواست گزار کو ہماری فکر پڑی ہے،ہم نے آئین کے اندر رہ کر کام کرنا ہے،قانون پسند نہ آنا اور غیرآئینی ہونا الگ چیزیں ہیں،ممکن ہے کئی قوانین مجھے بھی پسند نہ ہوں لیکن حلف اٹھایا ہے کہ ان پر عمل کروں گا،عدالت کے حقوق پر پارلیمان نے وار کیا ہوتا توعدالت سوموٹو لیتی، چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئےکچھ ججزنے پہلے یہ مقدمہ سنا ہوا ہے،کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ سینئر ججز کو مقدمہ سنناچاہیے،بہترین حل یہ تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیدی جاتی،پاکستان بار کونسل سمیت تین درخواستوں میں فل کورٹ کی استدعا کی گئی تھی، درخواست گزارکے وکیل نے قانون پرحکم امتناع دینے کے حکم نامہ کاحوالہ دیاچیف جسٹس نےکہا ماضی کی باتیں نہ کریں،وکیل نے کہا رولز بنانا سپریم کورٹ کااختیارہےپارلیمان کانہیں،چیف جسٹس نےپوچھا کیا درخواست گزاروں کی اس مقدمہ میں دلچسپی ہےیا عوامی مفاد میں آئے ہیں؟جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاپارلیمان کویہ اختیارکہاں سےہےکہ سپریم کورٹ رولز سےبالاتر قانون بنا سکے یا ان میں ترمیم کرسکے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کےبعد چیف جسٹس بےاختیار نہیں ہوگئے؟بظاہر کچھ فیصلوں سےبچنےکیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہااگر یہی قانون سترہ ججز رولز میں شامل کرلیں توکیا یہ درست ہے پارلیمنٹ کرے تو غلط ہے؟ جسٹس منیب اختر نےکہا عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے، پارلیمنٹ کیسے قانون سازی سے کسی جوڈیشل آرڈر کیخلاف اپیل کاحق دے سکتی ہےجسٹس جمال مندوخیل نے کہا ڈکٹیٹر کے قانون کے تحت آرٹیکل 199 میں اپیل کاحق دیاگیاتھا،ڈکٹیٹر کابنایاگیا قانون درست تھا پارلیمان کا نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نےکہاعدلیہ کی آزادی کیلئے ادارے کے اندر آزادی ہونا بھی ضروری ہے،کچھ عرصے میں چیف جسٹس آفس نےعدلیہ کی اندرونی آزادی ختم کردی تھی، چیف جسٹس نے کہا ججز آپس میں بحث کیلئے نہیں بیٹھے، قانون پسند نہ آنا اور غیرآئینی ہونا الگ چیزیں ہیں،ممکن ہے کئی قوانین مجھے بھی پسند نہ ہوں لیکن حلف اٹھایا ہے کہ ان پر عمل کروں گا،عدالت کے حقوق پر پارلیمان نے وار کیا ہوتا توعدالت سوموٹو لیتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر کن آئینی شقوں سے متصادم ہے آپ نے نہیں بتایا،اگر کوئی اہم مقدمہ میں دس سال مقرر نہ کروں تو کیا میری یہ مرضی درست ہے؟ پارلیمان نے پابند کیا ہے کہ اہم مقدمات کو دو ہفتے میں مقرر کیا جائے،آپ چاہتے ہیں چیف جسٹس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو،سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدہ کالعدم قرار دیا تو ملک کو 6.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، آپ چاہتے ہیں ملک کا چاہے نقصان ہوجائے چیف جسٹس کا اختیار کم نہ ہو،مجھے ایسا اختیار دیں بھی تو نہیں لوں گا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا پہلے میرے بنیادی سوال کا جواب دیدیں کہ فل کورٹ فیصلے کیخلاف اپیل کون سنے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فل بنچ ہوگا تو واضح ہے کہ اپیل نہیں ہوگی،جسٹس عائشہ ملک نے کہا اس سے واضح ہے کہ جس کیس میں اپیل کا حق نہیں دینا اس میں فل کورٹ بنا دیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چیف جسٹس کے اختیارات کا عدلیہ کی آزادی سے تعلق نہیں ہے،قانون پارلیمان نے نہیں بنانا تو کس نے بنانا ہے؟لوگوں کوشکایت ہے کہ کیسز نہیں لگتے چیف جسٹس مقدمات مقرر نہیں کرتے،ہم سترہ غیر منتخب افراد جیسے چاہیں فیصلے کریں لیکن عوام پارلیمان کے ذریعے کچھ نہ کہے،چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے میرے تمام ساتھی ججز میرے خلاف ہوگئے ہیں،بطور ججز ہم نے حلف آئین و قانون پر عمل کرنے کا لیا ہے عدالتی فیصلوں کے تابع ہونے کا نہیں، وکیل نے کہا ہمارے چیف جسٹس کے اختیارات ختم کیے جارہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا میں نے آپ کو وکیل نہیں کیا، جسٹسں اطہر من اللہ نے کہا قوم کے نمائندے پارلیمان میں ہیں وہ کہتے ہیں چیف جسٹس کو ایساہونا چاہیے،جسٹس منیب اختر نےکہاججز کی جانب سے دیے گئے فیصلے بھی قانون ہی ہوتے ہیں،پارلیمان عدالتی فیصلوں کو قانون سازی کے ذریعے بے اثر بھی کرسکتی ہے،وکیل نے کہا آئین کے مطابق چیف جسٹس طاقت کا منبع ہیں،چیف جسٹس نے کہا جو باتیں سب کو معلوم ہیں وہ کرکے وقت ضائع نہ کریں، وکیل نے جواب دیا ایک طرف آپ کہتے ہیں دلائل دیں پھر کہتے ہیں یہ نہ کہیں وہ نہ کہیں، سپریم کورٹ میں صرف چیف جسٹس ہو باقی ججز نہ ہوں تو بھی آئین کے مطابق عدالت چلے گی،چیف جسٹس نے کہا اگر غیر متعلقہ دلائل دینگے تو جرمانہ کروں گا،وکیل نے کہا آپ اس انداز میں بے توقیر کرینگے تو کیس نہیں لڑوں گاچیف جسٹس نے کہا کیس نہ لڑنا آپکی جوائس ہے، آپ ہماری بات نہیں سنتے، چیف جسٹس نے کہا کوشش تھی کہ مقدمہ ختم کریں لیکن آج ممکن نظر نہیں آرہا،وقفے کے دوران ساتھیوں نے کہا قانون ہو یا نہ ہو مشاورت پر پابندی نہیں، عدالت نےحکم نامے میں کہا چیف جسٹس بنچز کی تشکیل کیلئےسینئر ساتھی ججز سے مشاورت کرینگے،مشاورت اپنے طور پرجسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن سے ہوگی،درخواست گزاروں کے وکلاء تحریری معروضات 25 ستمبر تک جمع کرائیں،عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تین متفرق درخواستیں نمٹادیں اور کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔




``
آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف برگر کی قیمت سات سو ڈالر فیلکن نیٹ،جسامت میں چھوٹا لیکن خطراناک پرندہ
بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ چھیالیس سالہ خاتون ٹیٹوز کا عالمی ریکارڈ بنانے کی خواہاں سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟ دنیا کا سب سے چھوٹا،کیسا اور کہاں واقع ہے جانیئے۔۔۔۔۔۔