صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا

هفته 08 اپریل 2023ء

صدر مملکت نے اہنے نوٹ میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے ، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ، صدر مملکت نے موقف اہنایا کہ اُن کے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پورا کرنے کیلئے دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے ،آئین سپریم کورٹ کو اپیلی ، ایڈوائزری ، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، صدر مملکت نے موقف اپنایا کی مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین ، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت ، سے متعلق ہے ،مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے ، یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے ، قوانین کا باپ ہے ، آئین کوئی عام قانون نہیں ، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے،آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کاروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے ، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی، سپریم کورٹ رولز 1980 ء پر سال 1980 ء سے عمل درآمد کیا جارہا ہے ، جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے،ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے،آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے،آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ، آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں ، آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں ، عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا ، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا،پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے،آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے، آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے ، فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ ھ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے ، بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ، بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے،




``
آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے بھارت میں دلہن شادی کی رسومات چھوڑ کر چلی گئی؟ دولہے کی شادی سے بھاگنے کی کوشش ناکام پیرو میں جوتوں کی چوری کی عجیب واردات
انٹرنیٹ سروس معطل،لیکن پاکستانی میڈیا انفلوینسر کی ٹویٹس،دہلی پولیس پریشان دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ خاتون نے مردوں سے دور رہنے کےلئے انگوٹھی کیوں پہنی؟؟ ڈولفن بھی نشہ کرنے لگی؟