نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے,جسٹس اعجاز الاحسن

جمعرات 25 مئی 2023ء

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے بار بار فنڈز کیلئے مطالبہ کیوں نہیں کیا، الیکشن کمیشن خود سے متحرک کیوں نہیں ہے، آپ نے جنتی فوج مانگی وہ کیسے دی جاسکتی ہے، منتخب حکومت ہونا آئینی تقاضا ہے،نو مئی کے واقعات کی اہمیت ہے، اس نے متاثر کیا،کیا الیکشن کمیشن انتخابات موخر ہونے کو برداشت کرتا ہے یا نہیں،پانچ سال پورے ہونے کا انتظار نہ کریں،الیکشن کمیشن خود سے حکمت عملی طے کرے حکومت کا انتظار نہ کرے،یہ انتظار نہ کریں کہ آپکو کوئی پلیٹ میں رکھ کر دے گا، آپ خود مطالبہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیےالیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیے،الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے،کل ارکان اسمبلی کے لیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے،ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے،الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے، جو پولنگ سٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے، ہوم ورک کرکے آئیں، پتہ تو چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے،الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ اگر صوبائی اسمبلی چھ ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگران حکومت ہی رہےگی؟نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے،آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے،نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔ وکیل نے کہا پنجاب اور کے پی کے دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں، جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتحابات سے متعلق فیصلہ چیلنج ہوا تھا،سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں،آپ کہہ رہے ہیں کے پی کے کی اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی، اگر بلوچستان اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا،نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے،الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سیکورٹی دیں تو انتحابات کروا دیں گے،آئین کے حصول کی بات کر کے خود اس سے بھاگ رہے ہیں،انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں، چیف جسٹس نے کہا آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے،کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے، تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتے،عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے، الیکشن کمیشن کے جواب میں صرف وسائل نہ ہونے کا زکر تھا،الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہوگیا انتخابات ہر صورت ہونگے، اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کررہا ہے،بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ ساٹھ فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا،انتخابات تاخیر کا شکار ہوں تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی،آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنے عرصے تک رکھ سکتے ہیں، وکیل نے جواب دیا نو مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ میں انتخابات سے معذوری ظاہر کی نہ سپریم کورٹ میں، سپریم کورٹ کو بھی کہا کہ وسائل درکار ہیں، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے آئین کے اصولوں کے مطابق انتخابات ممکن نہیں ہیں، یہ پہلے کیوں نہیں کہا کہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں ہیں، چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، لیڈر آف ہاؤس کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے،نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں،فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ رہی، جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو نو مئی پر بات کرنے سے روک دیا اور کہا کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی تاریخ دیتے ہیں پھر کہتے ہیں ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا موقف اپنا لیتا ہے، کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی،




``
گدھا بازیاب،چور گرفتار دولہے کی شادی سے بھاگنے کی کوشش ناکام گھر برائے فروخت،قیمت ستاون ارب روپےسے زائد آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے
اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف انٹرنیٹ سروس معطل،لیکن پاکستانی میڈیا انفلوینسر کی ٹویٹس،دہلی پولیس پریشان ڈولفن بھی نشہ کرنے لگی؟ سانپ تھراپی،نیا طریقہ علاج؟