ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ،وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور

پیر 12 فروری 2024ء

ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی سے متعلق کیس کی سماعت،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت قرار دے دی،عدالت کا معاونت کے لیے عدالتی معاون مقرر کرنے کا فیصلہ، عدالت نے اٹارنی جنرل سے عدالتی معاونین کے نام اور قانونی سوالات آج ہی طلب کر لیے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی، اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے 1989 میں ججز تقرری سے متعلق اپیل زائدالمیعاد ہونے کے باوجود قابل سماعت قرار دی تھی،صدر مملکت کابینہ کی منظوری سے جج کے خلاف ریفرنس بھیجتے ہیں،صدر مملکت کے پاس کسی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا صوابدیدی اختیار نہیں، عدالتی فیصلے سے یہ طے کر دیا گیا کہ ریٹائرڈ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی،عافیہ شہربانو کیس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نہ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری کر سکتی ہے نہ ریگولیٹ کر سکتا ہے، وفاقی حکومت فیصلے کے اس حصے سے متفق ہے کہ سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات نہیں دےسکتی،چلتی ہوئی انکوائری صرف اس بنیاد پر ختم نہیں ہوسکتی کہ جج ریٹائر یا مستعفی ہو گئے،یہ ججز کی پنشن کا مسئلہ نہیں بلکہ عدلیہ پر عوامی اعتماد، شفافیت اور احتساب کا معاملہ ہے،اگر جج کے خلاف انکوائری چل رہی ہے اور مستعفی یا ریٹائر ہو جائے تو اس سے تذبذب رہتا ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا ہم کن سوالات کی بنیاد پر زائدالمیعاد اپیل قابل سماعت قرار دیں؟ عدالت نے کہا معاونت کے لیے عدالتی معاون مقرر کیے جائیں گے،عدالت نے اٹارنی جنرل سے عدالتی معاونین کے نام اور قانونی سوالات آج ہی طلب کر لیے، جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کچھ ججز ایسے ہیں جو اس اپیل سے براہ راست متاثر ہوں گے تو کیا ان کو نوٹس نہیں ہونا چاہئے؟جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا یہ حالیہ دو مستعفی ججز سے متعلق کیس ہے یا عمومی نوعیت کا ہے؟ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کیا ان دو ججز کو حق دفاع دینا نہیں چاہیے؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہاموجودہ کیس کسی جج کے خلاف نہیں ہے بلکہ ایک اصول سے متعلق ہے،اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کے خلاف مس کنڈکٹ ثابت کر دیا جائے تو قانونی نتائج کیا ہوں گے؟جج آسمان سے نہیں اترے لیکن ان کو حاصل آئینی تحفظات کے پیچھے بھی کچھ وجوہات ہیں،کیس احتیاط سے دیکھنا ہو گا کیونکہ آج کل سوشل میڈیا پر بھی ججز پر بےبنیاد الزامات لگتے ہیں،ججز کو فیصلہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ججز کسی کی خواہش پر نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، جج فیصلہ کرتے وقت بہت محتاط ہوتا ہے، جب سے جج بنا یہ میرے کیرئیر کا مشکل ترین کیس ہے کیونکہ اپنی ہی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے،جسٹس عرفان سعادت نے کہا جب کیس چلائیں گے تو صرف یہ نہیں دیکھیں گے کہ ججز کے خلاف زیر التوا انکوائریز کا کیا ہو گا، یہ بھی دیکھیں گے کہ جج کے خلاف شکایت کونسل میں آئی اور نوٹس نہیں ہوا تو ریٹائرمنٹ یا استعفے کے بعد اٹھائی جا سکتی ہے یا نہیں، بہت سے ایماندار ججز کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر بلیک میل کیا جاتا ہے، ججز کو بلیک میل کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی،کیس کی سماعت 19 فروری تک ملتوی کردی گئی۔




``
برگر کی قیمت سات سو ڈالر سمندری طوفانوں کے نام ،شرائط اور طریقہ کار آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے ایران میں بنا بلیوں کا میوزیم
دوسری جنگ عظیم کا پراسرار بنکر دریافت۔۔ پیرو میں جوتوں کی چوری کی عجیب واردات وینس کی گرینڈ کینال کا پانی سبز ہو گیا بحیرہ احمر میں شارک سیاح کو نگل گئی