سائفر کیس،خصوصی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کردی

جمعرات 14  ستمبر 2023ء

سائفر کیس،چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے مسترد کردی تفصیلات کے مطابق سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے وکیل سلمان صفدرکا کہنا تھا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفر کیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کو وزارتِ خارجہ نے وصول کیا۔ سلمان صفدر کا کہنا تھاکہ تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا چیئرمین پی ٹی آئی کو بنایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم ملک کی خود مختاری کا سوچا، ان کے خلاف 180 سے زائد کیسز درج کیےگئے، 140 سے زائد کیسز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے قبل درج ہوئے، ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا، سائفر کیس کے مقدمے میں سب نام جلد بازی میں نامزد کیے گئے۔ وکیل سلمان صفر نے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات لینے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے، مقدمے میں اعظم خان کا ذکر بھی ہے، کیا اعظم خان عدالت میں ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟ وکیل عمران خان نے کہا پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا، کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے، پراسیکیوشن کو یہ بھی ثابت کرنا ہےکہ سائفر کیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا سائفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہو گا، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے جملہ کسا کہ میرے والد 1923 میں پیدا ہوئے تھے، شاہ خاور کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا جو توشہ خانہ کیس کی کڑی میں پھنس گئے ہیں، انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات ہوئیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفر کیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، عمران خان ذمہ دار وزیراعظم رہے، چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں سلمان صفدر کا کہنا تھا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی کام نہیں کیا، سائفر ہےکیا؟بےشک کوڈڈ دستاویز ہوتی جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے۔ جج نے کہا سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، اسے عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔ فاضل جج نے کہا وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے، سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفر کیس یہ ہے، سائفر کے 4 نقول آتے ہیں جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے ہیں۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا آج کسی کلبھوشن یا ابھی نندن کا کیس نہیں سنا جا رہا، سائفر کیس بہت خطرناک بنایا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیراعظم ہیں، دورانِ ٹرائل معلوم ہو گا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا یا ملک دشمنوں کی سہولت کاری کی، جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے، اس کیس میں سیکریٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔ سماعت کے دوران جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ سائفر کیس پورا اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا لیکن سائفر ہے کہاں؟ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔ سماعت کے دوران سلمان صفدر کا کہنا تھا سائفر کیس میں ملک دشمن عناصر سے کچھ بھی شیئر نہیں کیا گیا، قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر رات گئے بھی بیٹھنا پڑے تو کوئی نہیں گھبرائے گا، اب معلوم کرنا ہے سائفر کیس سیکشن 3 اے کا ہے یا سیکشن 3 بی کا، پراسیکیوشن بتائے کہ بیرون ملک کس کو چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر پر بیان سے فائدہ ہوا، ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مروڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے، سائفر کیس تو بنایا ہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شیئر کرنے پر ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں۔ سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی کی جانب سے بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جو مقدمہ درج کرایا اس میں شاہ محمود قریشی کا ذکر تک نہیں ہے، شاہ محمود قریشی کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری کا کہنا تھا اگرکوئی عدالت سے دستاویزگم جائے تو صرف جج کی انکوائری نہیں ہوتی، سائفر آیا، وزیرخارجہ نے مجھے بتایا تو ذمہ داری ہے کہ کابینہ کو بتایا جائے، جس پر جج ابو الحسنات نے پوچھا جب سائفر موصول ہوا تو پھر کدھر گیا؟ وکیل علی بخاری نے کہا کہ 12 دن کا شاہ محمود قریشی جسمانی کا ریمانڈ دیا گیا، آج بھی جیل میں ہیں، شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑیاں لگاکریہاں لایا گیا تاکہ ذلیل کیا جا سکے۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز کی جانب سے عدالت میں عمران خان کے بیان کی ویڈیو دکھائی گئی اور سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے پہلے سے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دیں۔




``
دنیا کی مہنگی ترین جیکو کافی کی عجب کہانی دنیا کا سب سے چھوٹا،کیسا اور کہاں واقع ہے جانیئے۔۔۔۔۔۔ برگر کی قیمت سات سو ڈالر پیرو میں جوتوں کی چوری کی عجیب واردات
آسٹریلیا میں ایک میٹر تک بڑے مشروم کھل اٹھے چھیالیس سالہ خاتون ٹیٹوز کا عالمی ریکارڈ بنانے کی خواہاں اٹلی،ٹریفک کو بحال رکھنے کےلئے انوکھا قانون متعارف کینسر پر تحقیق کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کا انوکھا طریقہ