< meta name="viewport" content="width=device-width, initial-scale=1"> --> Faisal Hakeem Urdu Columns | آبپارہ نامہ

ہم اپنا محاسبہ کریں

بدھ 11 اکتوبر 2023ء

قدرت نے انسان میں مختلف خیالات و افکار جمع کئے ہیں جو ہر انسان کے مختلف ہیں‘ انسان ہی معاشروں میں بہتری لاتے ہیں اور تقدیر بدلتے ہیں‘ کسی ملک کی بات کی جائے سفارتی محاذ اور معاشی استحکام‘ کسی بھی ملک کی اس عالمی دنیا میں اہمیت کا پیمانہ ناپنے کا اہم ذریعہ ہے‘ پاکستان بھی ایک اسلامی جمہوری ملک ہے‘ اور ہماری وزارت خارجہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے نقش کو دنیا میں اجاگر کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنا چہرہ پاکستان کے مطابق بنائے اور پھر ملک کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے‘ یہ کام اہلیت‘ خندہ پیشانی اور محنت کے علاوہ عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے سے ہوتے ہیں‘ ہمارے بیوروکریٹس اور سفراء کو نہ جانے کیا زعم رہتا ہے کہ ان میں تکبر اور غرور کی طغیانی کی لہریں تھم ہی نہیں رہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ملک کو وہ نتائج نہیں دے سکی جو عالمی مقام کے لیے ہماری قوم کو درکار ہیں یا ملکی ترقی کے لیے جن کا ہمیں انتظار ہے‘ اس محاذ پر ہماری ناکامی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی ایک بہت بڑی تعداد روزگار کے لیے بیرون ملک جانے کے لیے سمندر کی لہروں کی نذر ہوجاتی ہے‘ یہ نوجوان معاش کی خاطر ملک چھوڑتے ہیں اور بیرون ملک جانے کے لیے ایسے راستوں کا انتخاب کرنے میں مجبور ہوجاتے ہیں جو غیر محفوظ بھی ہوتا ہے اور غیر قانونی بھی‘ لیکن چونکہ یہ سلسلہ چل رہا ہے لہذا نوجوان نسل بھی آسان راستے کی تلاش میں یہی راہ اختیار کرتی ہے جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں‘ ہماری وزارت خارجہ اور ملک کے دیگر ادارے سب اس بات کے ذمہ دار ہیں‘ انسانی اسمگلنگ کا دھندہ سمندر کے درمیان تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے بے شمار واقعات کے باوجودچھپ چھپا کر ابھی بھی جاری ہے اور اگر کوئی تارک وطن پاکستانی کسی وجہ سے بیرون ملک گرفتار ہوجائے تو بہت کم ایسا ہوتاہے کہ اس ملک میں پاکستان کے سفارت خانے کے افراد اس گرفتار پاکستانی کے مسلۂ کے حل کی جانب توجہ دیں‘ ایسے پاکستانیوں کی اکثریت قانونی امداد نہ ملنے سے جیلوں میں ہی پڑے سڑتی رہتی ہے‘ ہماری خارجہ پالیسی کی کوتا ہی تو پہلے روز ہی سامنے آگئی تھی کہ جب ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کی بجائے امریکہ کا دورہ کیا اس فیصلے سے ہم اپنی دہلیز پر موجود سوپر پاور کی حمائت سے محروم ہوگئے اور سات سمندر پار سوپر پاور سے دوستی جا لگائی اور یوں اس طرح روس کو ہمارے بارے میں تحفظات بڑھانے کا سبب بنا‘ اس نے کئی بار تحفظات بھی ظاہر کیے لیکن ہم نظرا نداز کرتے رہے‘ ابتدائی دنوں کی کمزور خارجہ پالیسی کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ افغانستان نے ہمیں تسلیم نہیں کیا‘ بلکہ پاکستان کے کچھ علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا‘ دوسری جانب بھارت نے دونوں بڑی سپر طاقتوں سے سفارتی تعلقات بنائے اور خوب سیاسی‘ فوجی امداد کے علاوہ اور معاشی فائدے اٹھائے‘ اس خطہ میں ان دنوں ایران امریکہ کا پولیس مین تھا‘1980 میں اس خطہ میں حالات نے کروٹ لی اور ایران میں ایک بڑی تبدیلی آگئی‘ شہنشاہ ایران کو اپنے ملک کو خیر باد کہنا پڑا‘ تب امریکہ نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور اپنے ملک میں پناہ دینے سے بھی معذرت کرلی تھی‘ لیکن مصر نے ایران کے معزول شہنشاہ ایران کو پناہ دی‘ وہیں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے پر مجبور رہے‘ ایران ہمارا ہمسایہ ملک اور برادر ملک ہے اس نے امریکہ کی پابندیوں کے باوجود ترقی کی اور اپنے ملک کی معیشت سنبھالے رکھی‘ ہم اس کے ساتھ بھی مثالی تعلقات نہیں قائم کرسکے‘ ایران اب خلائی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرچکا ہے‘ چین بھی ایشائی ملک ہے یہ بھی ہم سے بعد میں آزاد ہوا لیکن آج دنیا کی پانچویں بڑی قوت ہے اس نے 1960 میں ہم سے ٹیکنالوجی حاصل کی تھی لیکن ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے‘ سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے اور پاکستان اسے اپنی معیشت کے لیے مفید سمجھتا ہے لیکن حال ہی میں امریکہ کے سفیر نے گوادر کا دورہ کیا‘ وہاں وہ لوگوں سے ملے اور اسی وجہ سے چین کے تحفظات ہیں‘ ہماری خارجہ پالیسی کی کوئی سمت ہی نظر نہیں آرہی‘ ہماری کمزور خارجہ ہی در اصل ہماری کمزور معیشت کی وجہ ہے‘ ہمارے ملک کا چاول دنیا میں بہترین ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اپنا چاول بہتر انداز میں عالمی منڈی تک نہیں لے جاسکے‘ کتنے وہ ممالک ہیں جو ہمارے چاول پر اپنا مونو گرام لگا کر عالمی مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں مگر ہم نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی‘ یہی حال گندم کا ہے اور دیگر اجناس کا ہے‘ ہم اپنی ہی اجناس بیرون ممالک سے مہنگے داموں خرید رہے ہیں اور بھاری زرمبادلہ خرچ کر رہے ہیں‘ ہمیں چا ہئیے کہ اپنا جائزہ لیں‘ اور پھر ہی ہم ایرانی تیل کی اسمگلنگ بھی روک سکیں گے‘ یہی حال ایل پی جی کا ہے‘ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ملک کی ضروریات کا جائزہ لیں‘ تخمینہ لگائیں پھر بہتر فیصلے کر سکیں گے‘ اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہماری قومی معیشت پر کیا گہرے اثرات ڈال رہی ہے‘ دالبندین سے چینی‘ گندم‘کھاد کس طرح اسمگل ہورہی ہے اس کا جائزہ لینا قومی معیشت کو بچانے کے مترادف ہے‘ ایک وقت تھا پاکستان سے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ بیرون ملک جاتے‘ اب گداگر جارہے ہیں جو وہاں جاکر غیر قانونی حرکت کرتے ہیں اور ان ملکوں کے قانون بھی توڑتے ہیں‘ سلطنت اومان ایک بار جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں پاکستان کے سفیر امین اللہ ریئسانی تھے‘ ان کے ساتھ واک کے لیے نکلے تو انہوں نے ایک خالی پلاٹ کی جانب اشارہ کیا کہ یہ پلاٹ پاکستان کے سفارت خانے کی تعمیر کے لیے ملا ہے لیکن ہم ابھی تک کرائے کی بلڈنگ میں ہی کام کر رہے ہیں‘ مطلب یہ کہ ہم اپنے قومی وسائل ضائع کیوں کر رہے ہیں‘ پاکستانی سفارت خانے سے ویزا لینے کے لیے لوگوں کو وہاں سڑک کنارے کھڑا ہونا پڑتا ہے‘ وزارت خارجہ کو ایک خط بھیجا گیا تھا کہ اس سفارت خانے کی تعمیر کے لیے بلوچستان کے لوگ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں مگر وزارت خارجہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا‘ مسقط اس وقت آئی ٹی کا ٹائیکون بنتا جارہا ہے‘ اور ہم اپنا جائزہ لیں تو اپنا کڑا محاسبہ کرنا ہوگا‘ اس وقت دیکھیں برطانیہ کے وزیر اعظم اور امریکہ کے نائب صدربھارتی نژاد ہیں ہم نے تو بیرون دنیا میں کیا ترقی کرنی تھی ہم تو ابھی تک نجی پاور پلانٹس کے معاہدوں سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں اور مہنگی بجلی لینے پر مجبور ہیں‘ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں‘ اور اپنی کمزوریوں کا حساب لگائیں تاکہ ہم اپنی معیشت‘ زراعت اور صنعت بہتر بنا سکیں



New Jobs banner Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program banner Best Web Hosting in Pakistan banner