< meta name="viewport" content="width=device-width, initial-scale=1"> --> Faisal Hakeem Urdu Columns | آبپارہ نامہ

اب بھی وقت ہے ذرا سوچیئے!

پیر 08 مئی 2023ء

بچپن میں اکثر یہ واقعہ سنا کرتے تھے جس کا تعلق دینی امور باالخصوص عمل اور یقین سے متعلق تھا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک خطیب بڑے جوشلیے انداز میں خطبہ جمعہ دے رہے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ السلام کے رستے میں دریا موجود تھا اب دریا کو پار کرنا تھا حضرت موسی علیہ السلام کا خدا پر ایسا یقین تھا کہ اک لمحے کے لیئے بھی لرزش نہ آئی اور کلام الہی پڑھتے گئے اور پانی خود ہی نبی خدا کے لیئے راستہ بناتا گیا۔خطیب فرماتے ہیں اے لوگو! نبی خدا ہمیں یہ درس دے رہے ہیں کہ پروردگار کے ذکر پر کامل یقین ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے اور بند راستے کھل جایا کرتے ہیں۔ یہ خطبہ جہاں مسجد میں بیٹھے سامعین سن رہے تھے وہیں مسجد کے باہر سے گزرنے والا ایک چرواہا بھی مولانا صاحب کا خطبہ سن رہا تھا۔پھر کچھ دن بعد یوں ہوا چرواہا اپنے ریوڑ کو چراہ گاہ لے جارہا تھا لیکن چراہ گاہ تک پہنچنے کے لیئے ایک دریا کو عبور کرنا تھا اس نے سوچا پانی عبور کیسے کیا جائے؟پھر اچانک اسے خطیب صاحب کا وہی خطبہ یاد آگیا اور اسنے کلمہ طیبہ کا ورد کرنا شروع کردیا اور دریا اسکے لیئے راستہ بناتا گیا اور اسنے اپنے ریوڑ کو سرسبز گھاس کھلایا اور بہت خوش بھی ہوا اسنے سوچا کیوں نہ مولانا صاحب کے پاس جایا جائے اور انکا شکریہ ادا کیا جائے لہذا وہ چرواہا مولانا صاحب سے ملاقات کے لیئے پہنچ گیا اور اسنے شکریہ کے ساتھ ہی مولانا صاحب کو اپنی کہانی بھی سنا دی۔ اب مولانا صاحب چرواہے کی اس بات پر یقین کرنے کے لیئے تیار نہ تھے حالانکہ یہ خطبہ خود مولانا صاحب نے دیا مگر اپنے ہی دیئے گئے خطبے پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے خیر، خطیب صاحب چرواہے سے کہنے لگے یہ جو تم مجھے بتا رہے ہو ایسا ممکن ہی نہیں، چرواہے نے کہا حضور ایسا ممکن ہوا ہے میں آپ کو جو بتلا رہا ہوں وہ حقیقت ہے اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ میرے ساتھ چلیئے یوں ان دونوں کا اتفاق ہوا اور چرواہا مولانا صاحب کو لیکر اسی جگہ پر آگیا اب چرواہے نے کہا مولانا صاحب میں کلمہ طیبہ کا ورد کروں گا آپ میرے پیچھے پیچھے چلیئے گا لہذا چرواہا کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہا اور پانی اسکے لیئے رستہ بناتا گیا مولانا صاحب اپنی ا?نکھوں دیکھا بھی یقین کرنے کو تیار نہ تھے مگر پھر خوف میں چرواہے کے پیچھے پیچھے چل پڑے مگر کچھ ہی دیر بعد جب چرواہے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مولانا صاحب پانی میں ڈوب چکے تھے۔اس واقعے کی دْم یہ تھی کہ جو لوگ، دوسروں کو درس دیتے ہیں خود اس پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی یقین رکھتے ہیں۔ اس واقعے کو قارئین محترم کے لیئے اس لیئے لکھا کہ وہ اب خود اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں اور اس واقعے کو خطیب کے دائرے سے نکال کر حکمرانوں تک لائیں اور دیکھیں آپکو ایسے کتنے ہی حکمران ملیں گے جو اپنے لوگوں کو واعظ۔ و نصیحت کرتے ہیں مگر اس پر خود عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے مثلا،حکمران قانون کی بالادستی کا درس دیں گے لیکن خود ہی قانون کو پامال کریں گے، دوسروں کو کفایت شعاری اپنانے کا درس دیں گے مگر انکا اپنا رہن سہن مغل بادشاہوں سے کم نہیں ہوگا، انقلابی ہونے کا دعوی کریں گے،دوسروں کو مشکلات صعوبتیں برداشت کرنے کی تلقین کریں گے مگر خود مشکلات کاٹنے کے لیئے تیار نہیں ہونگے،بات کریں گے کہ ملک کی خود مختاری کو مقدم رکھنے کی، کشکول لیئے دنیا یا مالیاتی اداروں کی دہلیز پر نہ جانے کی مگر اپنے عمل سے اپنے ہی قول کی نفی کرتے ہیں۔ جو دعوی کرتے ہیں اس ملک کو ایشئن ٹائیگر بنانے کا جوش میں کیا گیا انکا یہ خطاب خود انہی پر قہقہ لگا رہا ہے، بات مساوات اور جمہوریت کی کرتے ہیں مگر عہدوں کی تقسیم اپنے خاندان سے باہر نہیں کرتے۔ہر شعبے میں اصلاحات لانے کی باتیں کی جاتیں ہیں بیرون ملک سے لوگ پاکستان میں آکر روزگار کریں گے ایسے دعوے ببانگ دہل کیئے جاتے ہیں مگر جب اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہیں تو اپنی ہی باتوں پر عمل کرنے سے عاری نظر آتے ہیں اور عوام بیچارے بھی ان وعدوں کے فریب میں آجاتے ہیں بقول گلزار عادتا تم نے کردیئے وعدے عادتا ہم نے اعتبار کیا قول و فعل کا تضاد جس تیزی کے ساتھ ہمارے سماج میں سرایت کر گیا ہے اب اسے بیماری کی بجائے زندگی کا لازمی جزو تسلیم کرلیا گیا ہے اگر انسان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور وہ جو کہے اس پر عمل پیرا بھی ہو ایسے انسان کو یہ سماج بیوقوف جانتا ہے جہاں دیگر عوامل بھی موجود ہیں وہیں قول و فعل میں تضاد جیسی بیماری نے بھی ہمیں اس نہج پر لاکھڑا کردیا ہے کہ ہم ڈھنگ سے جی بھی نہیں سکتے اب تو زندہ رہنا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ظاہر ہے جب آپ ایسے حاکموں کو اقتدار کی مسند پر لائیں گے جو اقتدار کی لالچ میں جوشیلے انداز میں اپنے فن خطابت کا جادو دکھاتے ہیں اور عوام اس خطاب پر دل و جاں سے ایمان لے آتے ہیں اور اسے ہی اپنا مسیحا منتخب کرلیتے ہیں تو پھر ہائے رے مسائل کا رونا کس کام کا؟یہاں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کرنے میں محض سیاستدان ہی نہیں بلکہ دیگر اداروں کا زیادہ نمایاں کردار رہا ہے مگر یہ داستاں ابھی زیر بحث نہیں۔لیکن اب ریاست کو بھی تشویش ہونی چاہیے کہ کسی حد تک عوام بھی اس نظام اور اس طرز حکمرانی سے مایوس نظر آرہے ہیں جسکی واضح مثالیں ہم انتخابات میں انتہائی کم ٹرن اوٹ کی صورت میں دیکھتے ہیں اور یہ ایک پیغام بھی ہے کہ اگر ارباب اختیار نے اپنی اسی روش کو نہ بدلا تو یاد رکھیئے وہ دن دور نہیں جب اس ملک کے باسی اس نظام پر مکمل عدم اعتماد کردیں گے۔ لہذا اب بھی وقت ہے ذرا سوچیئے!



New Jobs banner Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program banner Best Web Hosting in Pakistan banner