< meta name="viewport" content="width=device-width, initial-scale=1"> --> Faisal Hakeem Urdu Columns | آبپارہ نامہ

نظام انصاف پر عام آدمی کا اعتماد ہے؟

منگل 02 مئی 2023ء

پاکستانی سیاست سے متعلق اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے پڑھ کو معلوم ہوتا ہے گویا اب کچھ باقی ہی نہیں رہا لکھنے کو مگر پھر اپنے سماج ہونے والے ایسے ایسے عجب واقعات کو اخباروں اور ٹی وی چینلز میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ نہیں ابھی بہت کچھ ہے جس پر لکھا جاسکتا ہے جس پر بات کی جاسکتی ہے اسی بات پر ایک بات یاد آگئی ایک بار ملک کی معاشی صورتحال پر قلم اٹھایا اورعوام کی مشکلات کا ذکر ارباب اختیار سے کیا تو اس پر انتہائی قابل احترام میرے بھائی کہنے لگے یہ تو روایتی گفتگو ہے اس پر پہلے سے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کچھ نیا لکھیں! میں نے ان سے مودبانہ عرض کی کہ کیا یہ مسائل جنکا ذکر میں اپنی تحریر میں کر چکا اگر وہ حل ہوگئے ہوں تو خوب! اگر نہیں تو پھر اقبال کہہ گئے ہیں، مجھے ہے حکم آذاں۔کیونکہ درس اقبال یہی ہے کہ بانگ بیداری اگر کوئی بھی نہ سنے اصل مسائل کی جانب چاہے کوئی بھی متوجہ نہ ہو پھر بھی اپنا فریضہ ادا کرنا ہے اور آذان دیتے رہنا ہے۔ گفتگو کہاں سے کہاں نکل گئی خیر اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں جس کا ذکر ہر اخبار اور ہیڈلائینز کی زینت بنا ہوا ہے اور وہ ہے ہمارا نظام انصاف،قارئین محترم دنیا بھر میں انصاف کا ادارہ لوگوں کے لیئے ایک امید ہوا کرتا ہے جہاں متوسط اور غریب لوگوں یہ یقین بہر حال رہتا ہے کہ ہمیں انصاف اور فوری انصاف دلانے والا ایک ادارہ موجود ہے اور یہی یقین اور اعتماد انہیں اس سماج میں جینے کا حوصلہ بھی دیتا ہے اگر یہ ادارہ انصاف نہ ہو تو پھر سمندروں کا قانون(بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی کو کھاجانا) انسانوں کی بستی میں نافذ العمل ہوجایا کرتا ہے اور یہ قانون دیگر ممالک کا البتہ معلوم نہیں مگر اس قانون کا اگر عملی نمونہ دیکھنا ہو تو آپ پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔یہ بات سنہ 2017 کی ہے جب کوئٹہ میں ایک رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کی گاڑی کی ٹکر سے جی پی او چوک پر ٹریفک سارجنٹ سب انسپیکٹر حاجی عطا اللہ اپنی زندگی کی بازی ہار گیا تھا اس واقعے کی فوٹیج پوری دنیا نے دیکھی کہ کیسے یہ سب رونما ہوا۔پہلے تو اس واقعے میں ملزم چونکہ بااثر تھا اسے چھپانے کے لیئے مقدمہ ہی نامعلوم افراد پر درج کیا گیا تاہم جب فوٹیجز سامنے آئیں میڈیا میں شور ہوا تو مجبورا مقدمہ رکن صوبائی اسمبلی پر کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم سنہ 2020 میں عدالت نے مجید اچکزئی کو عدم ثبوتوں کے بنا پر رہا کردیا اندازہ کیجئے کہ جس واقعے کی فوٹیجز دن دیہاڑے سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر ہر شہری تک پہنچی ہو عدالت نے اس واقعے پر اپنے فیصلے میں لکھا چونکہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ گاڑی مجید اچکزئی چلارہے تھے یا نہیں اس لیئے انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔اس فیصلے پر لوگ دہائی دیتے رہے کہ اعلی عدلیہ میں اس معاملے کو اٹھایا جائے مگر کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ خیر یہ تو ٹھہرا ایک واقعہ اب حال ہی میں ہونے والے ایک ایسے واقعے کا ذکر کرتے ہیں جس نے سبکو نظام عدل سے مایوس کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،یہ واقعہ ہے سندھ کے شہر خیر پور کا جہاں ایک استاد اپنے طالبعلموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا، وڈیو ثبوت ہونے کے باوجود بھی عدالت نے ایسے شخص کو رہا کردیا اور ستم تو یہ کہ رہائی کے بعد اس شخص کو ہار بھی پہنائے گئے۔ عوام تو پوچھتی ہے کہ یہ نظام انصاف کا قتل نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا پاکستان میں غریب کو انصاف ملنا ناممکن ہوگیا ہے؟یہ کیسا سماج ہے جہاں بد فعلی کرنے والوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں؟ میں یہ کہوں گا کہ کچھ سوال عوام خود سے بھی کریں کہ ہم پچہتر سالون سے ایسی لیڈر شپ سامنے کیوں نہیں لا سکے جو حقیقی فلاحی مملکت کی آئینہ دار ہو؟ان حاکموں کے سبز باغ دکھانے پرہم اتنا جلد مرعوب کیوں ہوجاتے ہیں،جو نظام میں بگاڑ کا باعث ہیں؟ہم ان سے کیوں نہیں پوچھتے کہ انہوں نے بروقت اور سستا انصاف کا نعرہ مارا اسے عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا؟شائد بحیثیت قوم سنجیدگی ہمارے رویوں میں ہی نہیں ہے اسی لیئے ہمیں خود پر ترس بھی نہیں آتا اور دوسروں سے رحم کی آس بھی لگائے بیٹھے ہیں۔



New Jobs banner Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program banner Best Web Hosting in Pakistan banner