پاکستانی سیاست سے متعلق اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے پڑھ کو معلوم ہوتا ہے گویا اب کچھ باقی ہی نہیں رہا لکھنے کو مگر پھر
اپنے سماج ہونے والے ایسے ایسے عجب واقعات کو اخباروں اور ٹی وی چینلز میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ نہیں ابھی
بہت کچھ ہے جس پر لکھا جاسکتا ہے جس پر بات کی جاسکتی ہے اسی بات پر ایک بات یاد آگئی ایک بار ملک کی معاشی
صورتحال پر قلم اٹھایا اورعوام کی مشکلات کا ذکر ارباب اختیار سے کیا تو اس پر انتہائی قابل احترام میرے بھائی کہنے
لگے یہ تو روایتی گفتگو ہے اس پر پہلے سے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کچھ نیا لکھیں! میں نے ان سے مودبانہ عرض
کی کہ کیا یہ مسائل جنکا ذکر میں اپنی تحریر میں کر چکا اگر وہ حل ہوگئے ہوں تو خوب! اگر نہیں تو پھر اقبال کہہ گئے
ہیں، مجھے ہے حکم آذاں۔کیونکہ درس اقبال یہی ہے کہ بانگ بیداری اگر کوئی بھی نہ سنے اصل مسائل کی جانب چاہے
کوئی بھی متوجہ نہ ہو پھر بھی اپنا فریضہ ادا کرنا ہے اور آذان دیتے رہنا ہے۔ گفتگو کہاں سے کہاں نکل گئی خیر اپنے
موضوع کی جانب آتے ہیں جس کا ذکر ہر اخبار اور ہیڈلائینز کی زینت بنا ہوا ہے اور وہ ہے ہمارا نظام انصاف،قارئین
محترم دنیا بھر میں انصاف کا ادارہ لوگوں کے لیئے ایک امید ہوا کرتا ہے جہاں متوسط اور غریب لوگوں یہ یقین بہر حال
رہتا ہے کہ ہمیں انصاف اور فوری انصاف دلانے والا ایک ادارہ موجود ہے اور یہی یقین اور اعتماد انہیں اس سماج میں
جینے کا حوصلہ بھی دیتا ہے اگر یہ ادارہ انصاف نہ ہو تو پھر سمندروں کا قانون(بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی کو کھاجانا)
انسانوں کی بستی میں نافذ العمل ہوجایا کرتا ہے اور یہ قانون دیگر ممالک کا البتہ معلوم نہیں مگر اس قانون کا اگر عملی
نمونہ دیکھنا ہو تو آپ پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔یہ بات سنہ 2017 کی ہے جب کوئٹہ میں ایک رکن صوبائی اسمبلی مجید
خان اچکزئی کی گاڑی کی ٹکر سے جی پی او چوک پر ٹریفک سارجنٹ سب انسپیکٹر حاجی عطا اللہ اپنی زندگی کی بازی
ہار گیا تھا اس واقعے کی فوٹیج پوری دنیا نے دیکھی کہ کیسے یہ سب رونما ہوا۔پہلے تو اس واقعے میں ملزم چونکہ بااثر
تھا اسے چھپانے کے لیئے مقدمہ ہی نامعلوم افراد پر درج کیا گیا تاہم جب فوٹیجز سامنے آئیں میڈیا میں شور ہوا تو مجبورا
مقدمہ رکن صوبائی اسمبلی پر کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم سنہ 2020 میں عدالت نے مجید اچکزئی کو عدم
ثبوتوں کے بنا پر رہا کردیا اندازہ کیجئے کہ جس واقعے کی فوٹیجز دن دیہاڑے سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر ہر شہری
تک پہنچی ہو عدالت نے اس واقعے پر اپنے فیصلے میں لکھا چونکہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ گاڑی مجید اچکزئی چلارہے
تھے یا نہیں اس لیئے انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔اس فیصلے پر لوگ دہائی دیتے رہے کہ اعلی عدلیہ میں اس معاملے کو
اٹھایا جائے مگر کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ خیر یہ تو ٹھہرا ایک واقعہ اب حال ہی میں ہونے والے ایک ایسے واقعے کا ذکر
کرتے ہیں جس نے سبکو نظام عدل سے مایوس کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،یہ واقعہ ہے سندھ کے شہر خیر پور کا
جہاں ایک استاد اپنے طالبعلموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا، وڈیو ثبوت ہونے کے باوجود بھی عدالت نے ایسے شخص
کو رہا کردیا اور ستم تو یہ کہ رہائی کے بعد اس شخص کو ہار بھی پہنائے گئے۔
عوام تو پوچھتی ہے کہ یہ نظام انصاف کا قتل نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا پاکستان میں غریب کو انصاف ملنا ناممکن ہوگیا
ہے؟یہ کیسا سماج ہے جہاں بد فعلی کرنے والوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں؟ میں یہ کہوں گا کہ کچھ سوال عوام خود سے بھی
کریں کہ ہم پچہتر سالون سے ایسی لیڈر شپ سامنے کیوں نہیں لا سکے جو حقیقی فلاحی مملکت کی آئینہ دار ہو؟ان
حاکموں کے سبز باغ دکھانے پرہم اتنا جلد مرعوب کیوں ہوجاتے ہیں،جو نظام میں بگاڑ کا باعث ہیں؟ہم ان سے کیوں نہیں
پوچھتے کہ انہوں نے بروقت اور سستا انصاف کا نعرہ مارا اسے عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا؟شائد بحیثیت قوم سنجیدگی
ہمارے رویوں میں ہی نہیں ہے اسی لیئے ہمیں خود پر ترس بھی نہیں آتا اور دوسروں سے رحم کی آس بھی لگائے بیٹھے
ہیں۔
|