< meta name="viewport" content="width=device-width, initial-scale=1"> --> Faisal Hakeem Urdu Columns | آبپارہ نامہ

اسلام اور انصاف

منگل 21 مارچ 2023ء

اسلام ایک ایسا مذہب جو مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی موجود ہو،جس کی نظر میں تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں ،حضور اکرمﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں بھی واضح طور پر کہا کہ کسی عربی کو کسی عجمی اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں،حضور ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ریاست مدینہ کوتصور میں لائیں تو فوری طور پر انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف پر عملدرآمد ذہن میں آتا ہے اور انصاف پر بلاتفریق عمل اسلامی معاشرے کا ہی طرہ امتیاز ہے،روایات میں ہے کہ ایک عرب قبیلے کی امیر عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی جس کا تعلق ایک بڑے عزت دار گھرانے سے تھا تو سرداران قریش نے ایک صحابی کو بارگارہ رسالت میں سفارش کےلئے بھیجا،لوگوں کا خیال تھا کہ آپﷺ قبیلے اور گھرانے کی عزت کا خیال کرتے ہوئے سزا میں کمی کردیں گے لیکن اسکے برعکس جب حضور اکرمﷺ نے صحابی کی بات سنی تو آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا،آ پﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ بنت محمدﷺ بھی قانون سے مستثنیٰ نہیں،پہلی قومیں اسی لئے ہلاک ہوئیں کہ عام آدمی کو جرم کی سزا ملتی تھی لیکن بڑے آدمی کو معاف کردیا جاتا تھا،آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اسکی بھی یہی سزا ہوتی۔ اسلامی تاریخ انصاف کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ایسا انصاف جو مظلوم کی دادرسی بھی کرے اور ظالم کو سزا بھی دے،مملکت پاکستان کا قیام بھی اسلام کے سنہری اصولوں کے نفاذ کےلئے عمل میں لایا گیا،اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی،لیکن آج پچہتر سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہم پاکستان کو اس اسلامی فلاحی ریاست کے روپ میں نہیں ڈھال سکے جس کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اور اسکی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی صورت میں دی۔ انصاف کی فوری فراہمی کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر جگہ صرف رکاوٹیں ہی نظر آتی ہیں،عام لوگوں کے لئے قانون پر عملدرآمد کا طریقہ کار اورجبکہ امراٗ ،سیاستدانوں اور معاشرے کے اونچے طبقات کےلئے اور،انصاف کےلئے عام آدمی کئی سال عدالتوں کے دھکے کھاتے گزار دیتا ہے اور شاید کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ اسکی زندگی گزر جاتی لیکن انصاف تو دور کی بات اسکو ریلیف بھی نہیں مل پاتا،کسی شہر کی مقامی عدالتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں،ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیر التواٗ کیسز کی تعداد دیکھیں تو شاید ایک لمبی فہرست مل جائے گی لیکن اگر انکی ترتیب کا جائزہ لیں تو نتائج حوصلہ افزاٗ نظر نہیں آئیں گے۔اہم شخصیات کے کیسز کہیں ترجیحی بنیادوں پر سنے جاتے تو کہیں ریلیف ملتا نظر آتاہے،لیکن وہ عام آدمی جو نامساعد حالات کے باوجود انصاف کےلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو ایک لمبے عرصے تک عدالتوں کے چکر کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں کہ کچھ کیسز ترجیحی بنیادوں پر سنے جاتے ہیں لیکن عام آدمی کی دی گئی درخواستیں شنوائی کے انتظار میں پڑی رہتی ہیں،جس دن کسی اہم شخصیت کی پیشی ہواس دن عام لوگ ویسے خوار،کیا یہ انصاف ہے؟ کیا اس ملک میں جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا وہاں عام آدمی کو وہی انصاف اور ریلیف کا حق حاصل ہے جواہم شخصیات کو حاصل ہے؟ کیا عام لوگوں کے کیسز بھی ایسے ہی ترجیحی بنیادوں پر سنے جاتے ہیں جیسے اہم شخصیات کو ریلیف اور کیسز کی شنوائی کی سہولت دی جا رہی ہے؟ مسئلہ یہ نہیں کہ ترجیح کیوں دی جا رہی ہے مسئلہ یہ ہے کہ یہ ترجیح عام شہریوں کو بھی ملنی چاہیئے جو انصاف کے حصول کےلئے اپنی زندگی کے کئی سال اور جمع پونجی عدالتوں کے چکر لگاتے اور وکلاٗ کی فیسز کی مد میں ادا کرتے ہیں،ان کو بھی ویسے ہی ریلیف فراہم کیا جائے جیسے اہم شخصیات کو فراہم کیا جاتا،جب تک انصاف کی فراہمی بلاتفریق اور فوری نہیں ہوگی اسوقت تک اس پاکستان کی تعمیر و ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا جو مسلمانان برصغیر نے قیام پاکستان کی صورت میں دیکھا تھا۔ ہمیں ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا جہاں سب کو بلاتفریق اور فوری انصاف مہیا کیا جاسکے اور اگر عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کےلئے مشکلات کا سامنا اور انتظار کرنا پڑتا ہے اہم شخصیات کو بھی اس عمل سے گزارا جائے تاکہ انہیں عام آدمی کی مشکلات کا احساس ہو،وہ قوانین بنائے جائیں جس سے عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔



New Jobs banner Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program banner Best Web Hosting in Pakistan banner