< meta name="viewport" content="width=device-width, initial-scale=1"> --> Faisal Hakeem Urdu Columns | آبپارہ نامہ

!میں باپ ہوں

جمعرات 15 دسمبر 2022ء

سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے جب پاکستان کے نونہال تعلیم کےلئے سکول تو گئے لیکن ایسے کہ کبھی واپس نہ آئے، دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی نہتے،معصوم یہ بچے قربان ہوگئے اس دھرتی پر جس کی مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے کا خواب آنکھوں میں سجائے وہ صبح اپنے والدین کی دعائیں لیکر سکول پہنچے تھے۔ ان بچوں کی قربانی جہاں ملک کی تاریخ میں تاقیامت یاد رکھی جائے گی وہیں ان کے والدین کے دل کا یہ زخم بھی کبھی مندمل نہیں ہو پائے گا۔ میں بھی ایک باپ ہوں اور اسی تناظر میں لکھی یہ ایک تحریر ہے۔ آج سولہ دسمبر ہے اور ایک شہید کا باپ بیٹے کی تصویر لئے اپنے کمرے میں بیٹھا تصویر سے مخاطب ہے بیٹا مجھے وہ دن یاد ہے جب صبح تم سکول کےلئے نکلے تھے ہنستا مسکراتا چہرہ لیکر تمھاری ماں نے تمھیں دروازے پر الوداع کہا تھا اس وعدے کے ساتھ کہ آج میں اور تمھاری ماں تمھیں جلد لینے آئیں گے،دیر نہیں کریں گے،تمھیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میرے بیٹے مجھے یاد ہے تم نے شام کو میچ کھیلنے جانا تھا جسکی تیاری تم گزشتہ کئی دن سے کر رہے تھے اور رات کو تم نے میچ کےلئے اپنا بیٹ، کٹ اور دیگر چیزیں نکال کر سامنے رکھی تھیں، تاکہ عین وقت پر کوئی چیز ڈھونڈنی نہ پڑے، وہ سب چیزیں تمہارے کمرے میں اب بھی موجود ہیں۔ بیٹا تمھیں پتہ ہے تمھاری ماں آج بھی صبح اٹھتی ہے تمھارے کمرے میں جاتی ہے تمھاری تصویر کو بالکل ایسے چومتی ہے جیسے تمھاری پیشانی چومتی تھی۔روزانہ گھنٹوں تمھارے کمرے میں بیٹھ کر روتی اور تمھیں یاد کرتی ہے تمھاری ماں نے آج بھی تمام چیزیں اسی طرح کمرے میں سجا رکھی ہیں جیسے تم نے کہا تھا۔روزانہ رات سونے سے پہلے تمھارا خالی بستر دیکھ کر روتی ہے۔ بیٹا تمھیں پتہ ہے تمھارا بھائی تمھارے جانے کے بعد کتنا اکیلا ہے وہ شرارتیں جو تم دونوں ملکر کرتے تھے اس نے وہ شرارتیں کرنا چھوڑ دیا ہے بڑا ہوگیا ہے نا اور تھوڑا سنجیدہ بھی بس تمھاری ہر بات یاد کرتا ہے تمھاری بہن جسے تم گڑیاکہتے تھے اب بھی وہ ٹرافی جو تم سکول سے جیت کر لائے تھے اسکو روز صاف کرتی ہے۔تم اسے جو تنگ کرتے تھے وہ روزانہ یاد کرتی ہے۔دونوں بہن بھائی تمھاری ماں کے ساتھ بیٹھ کر راہ تکتے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔۔۔انکے دلوں کو آج تک تسلی نہیں ملی وہ ایک دوسرے کو اپنے دکھ سناتے ہیں اور تھیں یاد کرتے ہیں کہ کاش تم ہوتے تو زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتیں۔ بیٹا سب ایک دوسرے کو اپنا دکھ سنا سکتے ہیں لیکن میں اپنا دکھ کسی کو نہیں سنا سکتا۔ باپ ہوں نا مجھے سب کی ہمت بندھانی ہے۔ مجھے وہ سب ذمہ داری نبھانی ہے جو گھر کا سربراہ نبھاتا ہے ہر حال میں ہمت نہیں ہارتا۔ بیٹا میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں لیکن سینہ تان کر سب کے سامنے ہوں کیونکہ اگر میں نے ہمت ہاری تو تمھارے خوابوں کا جو تم نے اپنی ماں،بہن اور بھائی کےلئے دیکھے تھے ان کو کون پورا کرے گا۔ بیٹا اندر سے ٹوٹ چکا ہوں لیکن کسی کو بتا نہیں سکتا بس جب موقع ملتا ہے چپکے سے آتا ہوں تمھارے ساتھ اپنا دکھ درد بانٹتا ہوں صرف اسلئے کہ تم کسی کو بتاؤ گے نہیں۔ بیٹا مجھے پتہ ہے تمھاری ماں کو میرا تم سے یوں چھپ چھپ کر باتیں کرنے کا راز معلوم ہے لیکن وہ میرے سامنے انجان بنی رہتی ہے کہ میری ہمت بندھی رہے۔ بیٹا باپ ہوں نا نہ دنیا والوں کے سامنے اور نہ گھر والوں کے سامنے رو سکتا ہوں کیونکہ مجھے تو ابھی بہت لمبا سفر کرنا ہے تمھارے بھائی اور بہن کی ذمہ داری پوری کرنی ہے تمھاری ماں کی ہمت بندھانی ہے اور جب اس زندگی کے سفر کا اختتام ہوگا تو تم سے ملاقات کی امید میرا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ ایک دن ہم ملیں گے اور ضرور ملیں گے ہمیشہ کےلئے جہاں کوئی دہشت گرد ہمیں جدا نہیں کر سکے گا،نہ کسی ماں کی گود اجاڑ سکے گا،ہم ملیں گے اور ضرور ملیں گے۔مجھے یقین ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے جو امتحان لیا ہے ایک دن اسکا صلہ ہمیں تم سے جنت میں ملاقات کی صورت میں ملے گا۔ جب تمھاری کمی یوں محسوس ہوتی ہے کہ کسی نے سانسیں چھین لی ہو تو سوچتا ہوں کاش میں بھی کمرے میں لگی تمہاری تصویر کو چوم کر رو سکتا، لیکن میں تو تمہاری قبر کی مٹی صاف کرتے ہوئے بھی نہیں رو پاتا کیونکہ میں باپ ہوں۔۔ مگر جب بھی تنہا ہوتا ہوں تو میری آنکھوں میں سے آنسو آتش فشاں کی طرح ابلتے ہیں، وہ آنسو مجھے ایسے ہی جلاتے ہیں جیسے آتش فشاں کا لاوا زمین کو جلاتا ہے۔۔ مگر باہر آ کر سب سے معمول مطابق ملتا ہوں کیونکہ میں باپ ہوں۔۔



New Jobs banner Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program banner Best Web Hosting in Pakistan banner